urdu khani teesra rukh

                       


                               

                         کہانی تیسرا رخ 

پچھلی دونوں کہانیاں ایک ہی واقعے کے بارے میں مجھے دو مختلف لوگوں نے سنائی تھیں پھر میں نے خود سے غور کیا تو ایک تیسری کہانی بھی بنتی نظر آئی۔ پہلی کہانی میں سارا قصور لڑکی کا تھا۔ وہ حد سے زیادہ بگڑی ہوئی لڑکی نظر آرہی تھی ۔ دوسری کہانی میں لڑکی کو سیدھا اور معصوم ثابت کیا جا رہا تھا۔ جسے ایک شاطر اور عیار مرد نے اپنے جال میں پھنسا لیا تھا۔ وہ اس حد تک سیدھی تھی کہ موت کے منہ میں جاتے ہوئے بھی اس کی باتوں میں آکر ایسا بیان دے کر گئی تھی کہ اس مرد پر کوئی حرف نہیں آیا تھا۔ فریدہ ایک سیدھی سادی لڑکی تھی ۔ گھر میں کیبل لگی تو وہ بھی ڈرامے شوق سے دیکھنے لگی ان ڈراموں کو دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ اس کی زندگی میں کسی رنگینی کی ضرورت ہے۔انہی دنوں میں سروحید انہیں پڑھانے آئے کچھ فریدہ کی سوچ تھی۔ کچھ سر وحید کی مردانہ وجاہت اور سب سے بڑا فیکٹر تھا وہ لگاؤ جو ایک طالب علم کو اپنے استاد سے ہوتا ہے۔ ہر بچہ اپنے استاد سے متاثر ہوتا ہے چاہے لڑکا ہو یا لڑ کی۔ فریدہ بھی ایک طالب علم تھی۔ وہ بھی اپنے استاد سے متاثر تھی۔ اوپر سے سر کے مسکرا کر بات کرنے سے اس کے دل میں وہی خیالات پیدا ہونے لگے جو وہ روزانہ ڈراموں میں دیکھا کرتی تھی۔ وہ سر کی ستائش کرنے لگی۔ ان کی نظر میں اچھا بنے کو ہر کام میں آگے آگے رہنے لگی اور سر کی نظروں میں آنے کے لیے حاضر جواب بن گئی۔ سر وحید بھی اسی معاشرے کا ایک کردار تھے۔ اپنی تعریف اور چاہا جانا کیسے برا لگتا ہے سو انہوں نے بچی کو ٹوکنے کی کوشش نہیں کی ۔ نہ ہی اپنے انداز کو دلبرانہ سے بدل کر مشفقانہ اور بزرگانہ کیا جو ان کے عہدے کی ڈیمانڈ تھی۔

فریدہ اپنی سوچوں میں پختہ ہوتی گئی ایسے میں اسے پتہ چلا کہ سر وحید شادی شدہ اور ایک بچی کے باپ بھی ہیں۔ وہ پریشان ہوگئی اس نے تو بہت دور تک سوچ لیا تھا۔ اس شدید جذباتی دھچکے نے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی۔ اسے اس مرتبہ بھی راستہ ڈراموں کی آگے بڑھتی کہانیوں نے ہی فراہم کیا۔ اس نے بڑے غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ سر کو خودکشی کی دھمکی دے کر اپنی بات منوالے گی۔ آخر ڈراموں میں تو اسی طرح ہوتا ہے اگر وہ ایسے نہیں مانیں گے تو میری جان جاتی دیکھ کر تومان ہی جائیں گئے۔

اس نے سروحید کے سامنے گولیا کھانے کی دھمکی دی۔ سر پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ سب لڑکیاں متوجہ ہو گئی تھیں ۔ اب اپنی بات سے پیچھے ہٹنے میں اسے سیکی محسوس ہورہی تھی ۔ اس نے پھر سوچا۔ اتنے لوگ میرے ارد گرد موجود ہیں۔ یہ

بھی مجھے ہسپتال لے جائیں گے میں بچ جاؤں گی آج کی دنیا میں سب ممکن ہے ڈاکٹر مجھے بچالے گا۔ " یہ سوچ کر اس نے گولیاں پھانک لیں ۔ مگر بے حس لوگ اپنے آپ کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہے اور اسے فوراً ہسپتال نہیں پہنچایا جا سکا اور جب ایسا ہوا تب تک بہت دیر ہو گئی تھی ۔ ڈاکٹروں کی کوشش سے وہ تھوڑی دیر کے لیے ہوش میں آئی۔ اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ اب وہ زندگی نہیں بچے گی بیچ بھی گئی تو کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہے گی۔ اسی وقت سر نے اس سے بیان بدلنے کی التجا کی ۔ فریدہ نے مان لی۔سر وحید اور اکیڈمی صاف بچ نکلے۔ مگر آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہئے۔ یہ میں آپ پر چھوڑتی ہوں! مگر کیا آپ کا یہ خیال نہیں ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت ایک اہم

اور خاص مسئلہ ہے۔ کیا ہر گھر میں لڑکیاں نہیں ہیں؟ کیا ان کے والدین کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ انہیں کیبل کی خرافات سے بچائیں؟ جو ان کے معصوم ذہن کو پراگندگی اور برائی کی طرف مائل کر رہی ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں لڑکیوں کو فی میل اساتذہ سے نہیں پڑھانا چاہئے؟ تاکہ نہ مرد استاد ہو نہ فطری لگاؤ کسی غلط جذ بے کا روپ دھارے۔ یا اگر فی میل میسر نہیں تو جس مرد استاد کو لڑکیوں کے لیے چنا جائے وہ عمر رسیدہ اور بزرگ استاد ہو۔ تا کہ ہر لڑکی کو اپنی بیٹی سمجھ کر نہ صرف شفقت اور بزرگی سے پیش آئے بلکہ ان کی اچھی تربیت کرنے کی کوشش بھی کرے۔ فیصلہ تو آپ کو خود ہی کرتا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post