Qayamat Ka Din Hazrat Ali Farman in urdu

 


                               

بے شک خلق خدا کی حاجت روائی جو تم سے وابستہ ہے، یہ اللہ تعالی کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اس کو غنیمت جانو اور اس سے بھی نہ اکتاؤ ورنہ یہ نعمت تم پر موجب عذاب ہو گی۔ 

بے شک تقوی الہی ایک ایسی رہی ہے کہ جس کا موقع گرفت (گرہ) نہایت مضبوط ہے۔

 بے شک تقویٰ دین و ایمان کی آبادی، اصلاح و درستی کی کنجی اور کامیابی کا چراغ ہے۔ 

بے شک تیرا مال سب لوگوں کو کافی نہیں ہو سکتا، پس جو تیرے حق دار ہیں ان کے حقوق بالخصوص ادا کر ۔ ہے۔ 

بے شک عہد و پیماں قیامت کے دن تک گلے کا ہار ہیں۔ جس نے ان کو پورا کیا اللہ تعالی اسے اپنے ساتھ ملائے گا اور جس نے ان کو توڑ دیا، اللہ تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کرے گا اور جس نے ان کو حقیر جانا، یہ اس کے ساتھ مالک کی بارگاہ میں جھگڑیں گے جس نے ان کو پورا کرنے کی تاکید فرمائی ۔

 بے شک وہ شخص اچھا ہے جس نے دنیا کی خواہشوں سے مایوسی اور نا امیدی اختیار کی ۔ قناعت اور پر ہیز گاری کو اختیار کیا اور حرص وطمع سے بیزار ہوا۔ بلاشبہ حرص پوشیدہ محتاجی اور قناعت ظاہر دولت مندی ہے۔ 

بے شک دنیا ایک ایسے سر سبز اور شاداب کھیت کی مثل ہے جس کے ارد گرد نفسانی خواہشات کی باڑ ہے جو اپنے ساز و سامان کے ساتھ خوشنما معلوم ہوتی ہے لیکن در حقیقت یہ فضول امیدوں سے آراستہ ہے اور دھو کے اور فریب کی چیزوں سے مزین ہے۔ یہ سراسر دھو کے باز اور ضرر رساں ہے اور لوگوں کو کھا جانے والی اور ہر کسی کو ہلاکت میں ڈالنے والی ہے۔

بے شک سب سے اچھی موت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی راہ میں قتل ہو جائے خدا تعالی کی قسم خدا تعالی کی راہ میں تلوار کا سو زخم بھی بستر پر مرنے سے زیادہ آسان ہے۔ 

بے شک آدمیوں کے دل کسی وقت کار خیر کی طرف متوجہ اور راغب اور کسی وقت اس سے کنارہ کش ہوتے ہیں پس تمہیں لازم ہے کہ جب تمہارا دل کسی کار خیر کی طرف راغب ہو اور متوجہ ہو تو اسے پورا کرو اور اگر اس سے متنفر ہو تو اسے مجبور کرو کہ وہ حق کے حکم پر سر تسلیم خم کرے۔ 

بے شک تیرا وقت تیری عمر کا حصہ ہے پس اپنا کوئی وقت ایسے کام میں خرچ نہ کر جو تیری نجات کے لئے مفید نہ ہو۔ 

بے شک انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کی نافرمانیوں اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے پس اس کا شافی علاج یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کا شکر بجالائے اور گناہوں سے تو بہ کرے۔

 بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ جس طرح انسان کی نیت اس کی اطاعت میں مضبوط وقوی و خالص ہو اسی طرح لوگوں کے حق میں اچھی ہو (یعنی   کسی کے ساتھ بدخلقی یا بد سلوکی کا اسے خیال نہ ہو )

Post a Comment

Previous Post Next Post