urdu khani Dosara rukh urdu story


                              ﷽

  کہانی کا دوسرا رخ ا سر وحید تھے ہی ایسے۔ جب سے آئے تھے وہ زیدہ کے علاوہ دوسری لڑکیوں سے بھی بلا وجہ بے تکلف ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ 

پھر ان کی نظر فریدہ پر تک گئی۔ وہ تھی بھی تو اتنی خوبصورت۔ سرا کثر اسے کوئی نہ کوئی زو معنی بات کہہ دیتے تھے۔ اس کے ساتھ خصوصی مہربانی کا سلوک کرتے تھے ۔ کلاس کا کوئی کام ہو کہتے تھے۔ " جس طرح فریدہ کہے گی اسی طرح کرلیں گے۔ اگر کسی دن اس کا موڈ نہیں ہوتا تو کہتی ۔ سر آج اپنے دیں۔ کچھ اور پڑھ لیتے ہیں۔ یہ سبق پڑھنے کو دل

 نہیں چاہ رہا۔ سر فورا مسکرا کر کہتے ۔ چلیں جی ٹھیک ہے۔ اگر آپ کا دل پڑھنے کا نہیں چاہتا تو ہمارا بھی دل پڑھانے کو نہیں چاہتا۔ اس طرح کے التفات وہ بے چاری لڑکی کب تک برداشت کرتی ۔ پھر مجھے خود اس نے بتایا تھا کہ وہ سر سے فون پر بھی گفتگو کرتی تھی ۔ اصل میں سر گھر میں بیوی اور باہر محبو بہ رکھنے والے لوگوں میں سے تھے ۔ گو فریدہ کو علم نہیں تھا کہ وہ اس کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ وہ سنجیدہ ہوئی گئی۔ پھر ایک دن فریدہ کو پتہ چل گیا کہ سر اس کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہیں۔ وہ غصے میں آگئی۔ اس نے سر سے شادی کا مطالبہ کر دیا۔ سر نے پہلے تو آئیں بائیں کی پھر ایک دم اسے کلاس کے سامنے جھڑک دیا۔ اگلے دن اس نے گولیاں کھا کر خود کشی کر لی۔ مگر سرے بے حسی سے اسے موت کے منہ میں جاتے دیکھتے رہے۔

ہسپتال میں سر اس کے ساتھ گئے تھے۔ جب اسے ذراسی دیر کے لیے ہوشی آیا تو سرنے کہا۔ دیکھو فریدہ تم بیان دے دو ورنہ میں پھنس جاؤں گا۔ کیا تم مجھے جیل بھجوانا چاہتی ہو ۔ تم کہہ دو کہ تم نے اپنے باپ کی وفات کی وجہ سے خود کشی کی ہے۔ کیا تم میرے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتیں۔ اور اس پاگل لڑکی کو تو دیکھو اس نے یہ ہی بیان دیا اور وہ صاف بچ نکلا۔ سر وحید کو فریدہ سے یہ بیان دلوانے کے لیے اکیڈمی کے مالک نے مجبور کرایا تھا تا کہ اکیڈمی کسی چکر میں نہ پھنس جائے ۔ خود غرض مردوں کے معاشرے میں ایک نا سمجھ اور معصوم لڑکی ماری گئی۔ ان کا کیا جائے گا۔ وہ تو جانے سے گئی ۔ بدنامی الگ حصے میں آئی ۔ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ جانے اصل مسئلہ کیا ہے کہ لڑکی کو خود کشی ہی کرنی پڑ گئی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post