آسیب پرسرار کہانیAsaib Haunted Mystery urdu story

 


 سترہ سال ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے کم نہیں ہوتے۔ اوپر تلے کی تین بیٹیاں تو جوان ہو گئی تھیں اور گھر میں ان کی شادی کے تذکرے ہونے لگے تھے۔ دونوں میاں بیوی میں اب بھی اتنا ہی پیار تھا جتنا پہلے دن تھا۔ اس پیار میں اگر کبھی کبھی کوئی چیز کھنکتی تھی تو یہ کہ میرا کے کوئی بیٹا نہیں تھا۔ قدرت کے کھیل بھی عجیب ہوتے ہیں کہ ایک دن یہ کانٹا نکلنے کی امید بھی پیدا ہوگئی۔ پورے آٹھ سال بعد حمیرا پھر امید سے تھی دونوں میاں بیوی کو خوشی سے زیادہ اندیشہ تھا کہ کہیں اس مرتبہ بھی لڑکی پیدا نہ ہو جائے ۔ گھر میں دعائیں ہونے لگی منتیں مانی جانے لگیں۔ اس کی ساس نے تو منت مرادوں کے ڈھیر لگا دیئے کوئی مزار ایسا نہیں تھا جہاں وہ منت مانگنے نہ گئی ہو ۔ پیر فقیروں کے دروازوں کے چکر کاٹ کاٹ کر بڑھیا کے پاؤں سوج گئے کہ کسی طرح اس مرتبہ اس کے بیٹے کا وارث ہو جائے ۔

 سترہ سال ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے کم نہیں ہوتے۔ اوپر تلے کی تین بیٹیاں تو جوان ہو گئی تھیں اور گھر میں ان کی شادی کے تذکرے ہونے لگے تھے۔ دونوں میاں بیوی میں اب بھی اتنا ہی پیار تھا جتنا پہلے دن تھا۔ اس پیار میں اگر کبھی کبھی کوئی چیز کھنکتی تھی تو یہ کہ میرا کے کوئی بیٹا نہیں تھا۔ قدرت کے کھیل بھی عجیب ہوتے ہیں کہ ایک دن یہ کانٹا نکلنے کی امید بھی پیدا ہوگئی۔ پورے آٹھ سال بعد حمیرا پھر امید سے تھی دونوں میاں بیوی کو خوشی سے زیادہ اندیشہ تھا کہ کہیں اس مرتبہ بھی لڑکی پیدا نہ ہو جائے ۔ گھر میں دعائیں ہونے لگی منتیں مانی جانے لگیں۔ اس کی ساس نے تو منت مرادوں کے ڈھیر لگا دیئے کوئی مزار ایسا نہیں تھا جہاں وہ منت مانگنے نہ گئی ہو ۔ پیر فقیروں کے دروازوں کے چکر کاٹ کاٹ کر بڑھیا کے پاؤں سوج گئے کہ کسی طرح اس مرتبہ اس کے بیٹے کا وارث ہو جائے ۔

 بچہ پیدا کیا ہے تیری بیوی نے “۔ سلیم کی ماں نے مز بور کر کہا۔ بچے کی صحت واقعی ایسی تھی جیسے خدا نے تھکے میں جان ڈال دی ہو۔ کھائے پیئے گا ٹھیک ہو جائے گا۔ سلیم نے کہا۔ اس کی صحت ایسی نہیں کہ تمہاری طرح پھول گوندھنے کی محنت کر سکے۔ اسے تو پڑھا لکھا کر بابو بنا دینا ۔ سلیم کی ماں نے طنز کیا۔ ہاں اماں یہ تم نے ٹھیک کہا۔ ہم اسے خوب پڑھائیں گے ۔حمیرا نے اپنی ساس کے طنز کو سچ مچ تجویز سمجھتے ہوئے کہا۔ نتها با بوزندہ باؤ ۔ سلیم نے زور دار نعرہ لگایا۔

: اس دن سے اس نئے مہمان کا نام نھا پڑ گیا۔ ننھے کا سیک سلائی ہونا ہی کم تشویش کا باعث نہیں تھا کہ او پر سے یہ بات سامنے آئی کہ دن سے رات آگئی اس نے دودھ پیا اور نہ ہی ایک پل کو سویا ۔ بس ٹکر ٹکر ایک ایک کو دیکھ رہا ہے۔ ایک دن کا بچہ مشکل سے ہی آنکھ کھولتا ہے لیکن اس کی آنکھیں تو جانے کسے تلاش کر رہی تھیں۔ پیدا ہوتے ہی شہر چٹایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے دودھ کا ایک قطرہ اس کے منہ سے نہیں گیا تھا۔ دن بھر تو حمیرا نے توجہ نہیں دی۔ وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ شور ہنگامے نے اس کی نیند اڑا دی ہے۔ بالکل اپنے پاپ پر گیا ہے۔

      Asaib Haunted Mystery urdu story

 سنا ہے سلیم کو پہلے شور میں نیند نہیں آئی تھی ۔ بس جب سے نشہ کرنے لگا ہے تب سے اس کے طور اطوار ہی تبدیل ہو گئے تھے ۔ کچھ کچھ باتیں کرنے والی عور قیمی اپنے اپنے گھر وں کو رخصت ہو گئیں لیکن تھا آنکھیں بند کرنے کو تیار نہیں ہوا تو اسے تشویش ہوئی ۔ دودھ تو اس نے کسی نہ کسی طرح پی لیا لیکن سونے کے لیے قطعی تیار نہیں تھا۔ اس نے کمرے میں گھپ اندھیرا

 کیا اور نھے کو سلانے کی کوشش کرنے لگی ۔ اسے سلانے کی کوشش میں خود اس کو نیند آ گئی ۔ رات میں کسی وقت آنکھ کھلی ننھا اب بھی جاگ رہا تھا۔ یا اللہ یہ سوتا کیوں نہیں۔ صبح سے رویا بھی تو نہیں ، اس نے گھبرا کے سلیم کو آواز دی۔ ہوں، کیا ہے؟‘ سلیم نے آنکھیں بند کئے کئے جواب دیا ۔ ننھا اب تک جاگ رہا ہے۔ " کیا سب کچھ بھول گئی رات میں بچے جاگتے ہی ہیں۔ مگر روتے بھی تو ہیں۔ لے، یہ بھی کوئی زبردستی ہے، اس کا دل نہیں چاہ رہا ہے نہیں رورہا ہے۔ دل چاہنے کی بات نہیں ہے کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ یہ صبح سے نہ تو ر دیا ہے نہ سویا ہے"۔

 اچھا تو سو جا اور مجھے بھی سونے دے۔ نشہ خراب کرنے پر تلی ہے“۔ سلیم نے کروٹ بدلی اور پھر سو گیا۔ وہ تو سو گیا لیکن حمیرا کی آنکھوں میں نیند کہاں ۔ سینکڑوں وسوسے اسے جگار ہے تھے کسی چھل پیری نے میری بچے کو تعویذ گنڈا تو گھول کر نہیں پلا دیا ۔ کوئی سایہ تو نہیں ہو گیا میرے لال پر ۔ وہ سوچتی رہی ، جاگتی رہی اور ننھے کو سلانے کی کوشش کرتی رہی اور ساتھ ہی صبح ہونے کا انتظار کرتی رہی کہ صبح ہو تو کچھ دوا دارو کی جائے۔ آج وقت سے پہلے ہی صبح نے آنکھیں کھول دیں۔ آنگن میں لگے ہوئے اکیلے پیٹر پر بیٹھی چڑیوں نے چہچہانا شروع ہی کیا تھا کہ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی ۔ نتھا ابھی تک آنکھیں کھولے کلبلا رہا تھا ۔ وہ بستر سے اٹھی اور سلیم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، لیکن

 وہ ہیروئین پی کر جانے کس وقت سو یا تھا ابھی کہاں اٹھنے والا تھا۔ اس طرف سے مایوس ہو کر وہ ساس کے بستر پر پہنچ گئی ۔ ” اماں نھا رات بھر نہیں سویا‘۔ سوئے گا کہاں سے۔ بدن میں کچھ جان ہو تو آنکھوں میں نیند اترے۔ تنکے بھی کہیں سوتے ہیں۔ اس کی ساس تو کل سے کھول رہی تھی۔ جیسے ننھے کے دبلا پتلا ہونے میں حمیرا کا دانستہ ہاتھ ہو ۔ اس نے بھی ٹکا سا جواب دے کر آنکھیں بند کرلیں ۔ اماں ایسی باتیں مت کرو ۔ وہ جیسا بھی ہے تمہارا ہوتا ہے معصوم ہے۔ اس کی فکر ہم نہیں کریں گے تو ! تو میں کیا کروں ۔ تم یاں ہو، تمہاری گود میں نہیں سویا تو مجھے کون سی لوری آتی ہے کہ اسے سلا دوں گی ۔ کب تک جاگے گا نیند آئے گی تو آپ ہی سو جائےگا۔

      Asaib Haunted Mystery urdu story

 اماں کسی نے کچھ کرا دیا ہے اس پر ۔ تم مجھے مولوی صاحب کے پاس لے چلو ۔ وہ دم کر دیں گے اس ارے کچھ نہیں ہوتا اسے تھوڑا سا لو بان اور کلونجی لے کر آ ۔ میں دھونی دیتی ہوں ، قرآن پاک کی ہوا دوں گی سو جائے گا اور ہاں اپنے سر ہانے کوئی چھری چاقو رکھ لے، ٹونکا ہوتا ہے۔ حمیرا نے اس ہمدردی کو ہی بہت سمجھا اور ڈاکٹر کے پاس جانے کا خیال ذہن سے نکال دیا۔ اگلے تین دن تک دھونی دی جاتی رہی تو نے ٹو ٹکے ہوتے رہے اور کچی بات تو یہ ہے کہ اب حمیرا کی ساس کو بھی فکر ہونے لگی ۔ سلیم تو پہلے دن ہی سے پریشان تھا۔ اب جب تھا چار دن کا ہو گیا اور نہیں سویا تو سلیم کی ہمت بھی جواب دے گئی ۔

 دو پہر اور شام کے درمیان کا وقت تھا کہ سلیم خوشی خوشی گھر میں داخل ہوا۔ وہ ایسا خوش تھا جیسے اس نے کوئی مسیحا کوئی حکیم، کوئی ڈاکٹر تلاش کر لیا ہو۔ اس پریشانی کا علاج دریافت کر لیا ہو جس نے اس کی نیندیں چرالی تھیں ۔ ننھے کو ذرا اچھی طرح پیسٹ دو ۔ میں دم کروا کے لاتا ہوں۔ کہاں لے جاؤ گے ؟ حمیرا نے پوچھا۔ بس کچھ نہ پوچھو ۔ ایک پہنچے ہوئے بزرگ کے پاس لے جا رہا ہوں۔ ایسے پہنچے ہوئے ہیں کہ دیکھتے ہی سلا دیں گئے“۔ سچ !" اور نہیں تو کیا جھوٹ ! بس تو اسے کسی کپڑے میں لپیٹ دے۔ میں جب تک ٹرنک میں سے پیسے نکال لوں۔

 اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں حمیرا نے جلدی جلدی ننھے کو تو لیے میں لپیٹا اور سلیم کا انتظار کرنے لگی جو ٹرنک سے پیسے لینے گیا ہوا تھا۔ سلیم نے ٹرنک سے پیسے لینے کے بہانے ایک پڑیا ہیروئین کی نکالی اور چپکے سے اپنی جیب میں ڈال لی۔ وہ کمرے سے باہر نکلا تو حمیر ا ننھے کو لئے کھڑی تھی اس نے خوشی خوشی ننھے کو سیلم کے حوالے کیا اور دل ہی دل میں دعائیں دینے لگی ۔ اس کی ساس بھی اب گھر یلو علاج سے تھک چکی تھی اس لیے اس نے بھی ننھے کو باہر لے جانے سے روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ سلیم چوروں کی طرح چپکے چپکے دبے قدموں گھر سے باہر نکلا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی جان پہچان کا آدمی اسے جاتا ہوا دیکھ لے اور اخلاقاً اس کے ساتھ ہوئے۔ اس لیے کہ وہ جس علاج کے لیے بچے کو لے جار ہا تھا وہ علاج سب سے چھپ کر ہی ہو سکتا تھا۔ مکمل

 راز داری اس میں بنیادی شر ہا تھی ۔ اس علاج کا راز اس پر کچھ دیر پہلے ہی منکشف ہوا تھا اور تشویش کی بجائے اسے خوشی ہوئی تھی۔ 10 دکان پر بیٹھا پھولوں کے گجرے بنا رہا تھا اور ریڈیوسنتا جارہا تھا۔ ریڈیو پر کوئی بتا رہا تھا کہ سگریٹ بھی ایک نشر ہے۔ اس نشے کی عادت میں مبتلا افراد کے جسم میں نکوٹین کی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے جو خود انہیں تو نقصان پہنچاتی ہی ہے ان کی اولاد میں بھی منتقل ہو جاتی ہے اور طرح طرح کے امراض کا باعث بن جاتی ہے۔ ایسے افراد کی اولاد میں پیدائشی طور پر نشہ کا رجحان موجود ہو سکتا ہے۔ یہ پروگرام سگریٹ نوشی کے خلاف تھا لیکن سلیم نے سوچا جب سگریٹ کا یہ حال ہے جسے ہم نشہ ہی نہیں سمجھتے تو ہیروئین کے اثرات کتنی تیزی سے منتقل ہوتے ہوں گے جو بہت طاقتور نشہ ہے۔

 یہ سوچتے ہی اس کا خیال ننھے کی طرف گیا۔ شاید اس کا ننھا بھی پیدائشی ہیرونچی ہے اور نشہ نہ ملنے کی وجہ سے مسلسل جاگ رہا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ نشہ ٹوٹ رہا ہو تو آدمی پر کیا گزرتی ہے اور نیند کس طرح اس سے کوسوں دور بھاگتی ہے ۔ وہ بے زبان تو اپنی تکلیف کا اظہار بھی نہیں کر سکتا۔ اسے بے اختیار اپنے بیٹے پر پیار آنے لگا۔ اس نے دل ہی دل میں لاؤ سے اپنے بیٹے کے سر پر چپت ماری ، شریر کہیں کا۔ بالکل میرے اوپر گیا ہے۔ ساتھ ہی اسے خود پر غصہ آنے لگا کہ اس کا خیال اب تک اس طرح کیوں نہیں گیا تھا نیٹی کا بیٹا پیداش نشئی بھی تو ہوسکتا ہے۔

 وہ اس وقت دکان سے اٹھا اور گھر پہنچ گیا اور اب کسی ایسی مناسب جگہ کی تلاش میں تھا جہاں وہ دوا کی پہلی خوراک اسے دے سکے۔ آخر یہ جگہ اسے مل گئی۔ ایک شتر و دوا کی وہ تھی کی آمد ورفت ایک شکستہ دیوار کی اوٹ تھی جہاں لوگوں کی آمدروفت کم تھی ۔ یوں بھی وہ گھر سے اتنی دور نکل آیا تھا کہ کسی

 شناسا کے ملنے کا احتمال بہت کم تھا۔ اس نے بچے کو گود میں میں لٹایا اور کندھے پر پڑی چادر اوڑھ لی۔ اب اسے دیکھ کر کوئی یہ اندازہ بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی گود میں کوئی بچہ ہے۔ دیکھتا بھی تو سوچتا کہ کوئی ہیرونچی ہے۔ نشہ کر رہا ہے، ایسے ہیرونچی قدم قدم پر کمبل اوڑھے سر جھکائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس نے اچھی طرح اطمینان کرنے کے بعد سگریٹ بھرا کش لگایا اور اس کا دھواں چادر میں منہ ڈال کر ننھے کے منہ کی طرف اچھال دیا۔ یہ عمل اس نے بار بارد ہرایا چادر دھوئیں سے بھر گئی جسے نھا اپنی سانس کے ذریعے اپنے پھیپھڑوں میں اتارتا رہا۔ کئی بار سلیم کے دل میں بے ایمانی آئی کہ ایک آدھ کش کا دھواں وہ اپنے پھیپھڑوں میں بھی اتار لے لیکن اس کے ضمیر نے اجازت نہ دی۔ یہ سگریٹ تو اس کے بیٹے کا حصہ ہے۔

     Asaib Haunted Mystery urdu story

 جو نشہ نہ ملنے کی وجہ سے کئی راتوں سے سویا نہیں ہے۔ اس نے ایک کش بھی اپنے پھیپھڑوں میں نہیں اتارا۔ دھوئیں کے جتنے مرغولے تھے سب کے سب اس ننھی سی جان پر نچھاور کر دئیے۔ سگریٹ ختم ہوتے ہی اس نے دیکھا کہ تھا آہستہ آہستہ آنکھیں موند رہا ہے۔ وہ منظر جسے دیکھنے کو وہ چار دن سے ترس رہا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ واہ بیٹا ! تو تو اپنے باپ کا بھی باپ نکلا ۔ اتنا سرور تو کبھی تیرے باپ کو بھی نہیں آیا۔ جس مزے سے تو سو رہا ہے ۔ سلیم اپنے اس کارنامے پر حیران رہ گیا۔ وہ خوشی سے چلانا چاہتا تھا لیکن بڑی مشکل سے اس نے اپنی خوشی پر قابو پایا اور میرا کو اس خوشی میں حصہ دار بنانے کے لیے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچا تو حمیرا اور اماں کی حالت بھی وہی ہو

 گئی جس خوشی سے وہ دو چار ہوا تھا۔ حمیرا نے تو سجدے میں گر کر اس بزرگ کے حق میں دعا کی۔ جس کی چند پھونکوں سے چار دن کا جاگا بچہ اس وقت بے خبر سو رہا تھا۔ یہ سب تو ہو گیا لیکن اب سلیم یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ نشہ کرانے کے لیے روز روز بچے کو باہر لے کر کیسے جایا کرے گا۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ حمیرا کو سب کچھ بتا دے گا تا کہ کہیں جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے گھر ہی میں نشہ کر ا سکے ۔ رات کو جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں حمیر اچی چیخ کر پورا گھر نہ سر پر اٹھالے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ حمیرا نے کہا۔ سلیم یہ بزرگ تو واقعی بڑے پہنچے ہوئے ہیں۔ کبھی مجھے بھی ان کے پاس لے کر چل نا۔ بزرگ تو روز تیرے گھر آتے ہیں“۔ ہیں ! کیا کہا؟ روز آتے ہیں ۔ مگر میں نے تو انہیں کبھی نہیں دیکھا“۔

 پگلی وہ بزرگ میں ہی ہوں“۔ مذاق مت کر کچی کچی بتا“۔ بتا تو رہا ہوں اور پھر اس نے پورا قصہ حمیرا کو سنا دیا۔ ننھے کا علاج ہو گیا تھا اس لیے وہ اتنی خوش تھی کہ خفا تو نہیں ہوئی لیکن پریشان ضرور ہوگئی۔ سب کہتے ہیں ہیروئین صحت کے لیے خراب ہوتی ہے، خون پی جاتی ہے۔ ننھے کی جان کو روگ تو نہیں لگ جائے گا۔ وہ تو ویسے ہی دھان پان ہے۔ ہمارا ایک ہی تو بیٹا ہے۔ اگر اسے بھی کچھ ہو گیا تو ؟“ اری پگلی کچھ نہیں ہوتا۔ یہ میرا بیٹا ہے میرا جب آج تک مجھے کچھ نہیں ہوا تو اسے کیا ہوگا“۔ " تیری بات اور ہے۔ یہ تو معصوم جان ہے"۔ یہ بات سمجھانے کی نہیں تھی۔ اتنی بات تو وہ بھی

 سمجھتا تھا لیکن اس کی نظر میں اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں تھا۔ سگریٹ نے جو وقتی فائدہ اس کے بیٹے کو پہنچایا تھا وہ بھی حوصلہ افزاء تھا اور پھر نہ جانے کیوں اس کے دل میں یہ خیال بیٹھ گیا تھا کہ اگر اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے تو نشہ کوئی نقصان نہیں پہنچا تا۔ لیکن ننھے کے معاملے میں اعتدال کی احتیاط نہیں رہی تھی۔ اسے اپنے بارے میں تو معلوم تھا کہ وہ کتنے گرام برداشت کر سکتا تھا۔ ننھے کی خوراک کا اندازہ نہیں تھا۔ اس نے پہلے ہی دن پوری سگریٹ اس کے پھیپھڑوں میں اتار دی تھی ۔ حمیرا نے بھی اس پہلو سے نہیں سوچا تھا اور سلیم کے ساتھ مل کر اپنے بچے کو یہ زہر دیتی رہی۔ اس نے دودھ پینا کم کر دیا۔ یا تو نیند کو ترستا تھا یا اب جا گنا بھول گیا تھا۔ ہر وقت اونگھتا رہتا جب نشہ ٹوٹنے لگتا۔ اس کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ۔ اسے جھٹکے سے لگنے لگتے ۔ وہ کسی کو بھیج کر سلیم کو بلواتی ۔ وہ آکر ٹرنک والے کمرے میں اسے نشہ کرواتا تب کہیں جا کر آرام آتا۔

 نیک بخت! کہیں بچے مردوں کے ہاتھوں بھی پلتے ہیں۔ میں اگر کبھی شہر سے باہر چلا گیا تو بچہ گیا میرے ہاتھوں سے تو خود کیوں نہیں پلاتی۔ سلیم نے ایک دن اس سے کہا۔ میں ! میں بھلا کیسے؟" اس میں مشکل کیا ہے۔ سگریٹ بھرنا تو تجھے آہی گیا۔ بس اب تجھے یہ کرنا ہے ، اس سگریٹ کو منہ میں دیا اور سانس اندر کی طرف کھینچ ۔ دھوئیں کو منہ میں جمع کر ہے۔ اتنی احتیاط کرنا کہ دھواں اپنے پیٹ میں نہ اتارنا۔ اب میں اتنی بھی نادان نہیں“ ۔ اس نے شیخی بگھارتے ہوئے کیا۔

 ’ہاں ہاں جانتا ہوں تو کتنی ہوشیار ہے۔ چل شروع کر کش لے اور دھواں منہ میں جمع کرئے۔ حمیرا نے کسی سعادت مند شاگرد کی طرح اس ہدایت پر عمل کیا اور دھواں ننھے کے منہ پر چھوڑتی گئی۔ تین چار دن کی مشق کے بعد وہ یہ کام اچھی سرح سیکھ گئی۔ ننھا تین ماہ کا ہو گیا لیکن دیکھے میں اب بھی چار پانچ دن کا لگتا تھا۔ سب کا خیال یہ تھا کہ بچے پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔ یہ تو صرف سلیم اور حمیرا ہی جانتے تھے کہ معاملہ کیا ہے لیکن وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتے کہ جب بڑا ہو گا اور دودھ کے علاوہ کوئی ٹھوس غذا کھائے گا تو خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ قدرت کو جانے کیا منظور تھا کہ حمیرا پھر امید سے ہو گئی ۔ سلیم ایک مرتبہ پھر خوشی سے بے قابو ہو گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ قدرت مہربان ہوئی ہے تو آنے والا

 مہمان بھی لڑکا ہوگا جوڑی بن جائے گی۔ بھائی کو بھائی تو ہونا چاہئے ۔ لڑکیاں تو اپنے اپنے گھر چلی جائیں گی، کم از کم دو بیٹے تو ہوں گھر کی رکھوالی کے لیے۔ ابھی ننھے کی دیکھ بھال سے فرصت نہیں ملی تھی کہ اسے نئے مہمان کی آمد نے پریشان کر دیا۔ گھر کی دیکھ بھال کرے یا اپنی اور ننھے کی صحت کا خیال رکھے۔ اس نے بہت سوچ سمجھ کر بڑی دونوں بیٹیوں کو اسکول سے اٹھا لیا ۔ اب بیٹے ہونے لگے تو بیٹیوں کی قدر ویسے ہی کم ہو گئی تھی ۔ اب اسے ننھے کی دیکھ بھال کے علاوہ کوئی کام نہ تھا پورے گھر کا کام دونوں بیٹیوں نے سنبھال لیا تھا۔ ایک دن آدھی رات کو میرا کے پیٹ میں درد اٹھا۔ درد بھی ایسا کہ وہ تڑپ کر رہ گئی۔ سلیم تو برابر میں سوہی رہا تھا اس نے گھبرا کر اسے آواز دی۔

 " کیا ہے؟ کیا مصیبت آگئی اتنی رات گئے"۔ اٹھو، میرے پیٹ میں سخت درد ہے۔

 تو میں کیا کروں! صبح تک ٹھیک ہو جائے و نہیں ٹھیک ہوگا ۔ تو مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چل اتنی رات گئے ڈاکٹر کے پاس چلنے کا سن کر وہ پریشان ہو گیا۔ اسے ایک علاج سوجھا۔ وہ خاموشی سے اٹھا اور ٹرنک والے کمرے سے ایک سگریٹ لا کر اس کے ہاتھ میں تھمادی۔ یہ لے۔ اس سگریٹ کا دھواں سانس کے ذریعے پیٹ میں اتار لے۔ دیکھ ابھی آرام آجائے گا۔ اس میں درد کی دوا بھری ہے۔ صبح ہسپتال لے چلوں حمیر انٹھے کو نشہ کراتے کراتے انجانے میں خود بھی اس کی عادی ہو چکی تھی ۔ اسے کش لگاتے اور دھواں اپنے اندر اتارتے ذرا بھی وقت نہیں ہوئی بلکہ اچھا لگا۔

 جیسے برسوں سے وہ اسی انتظار میں تھی۔ ہیروئین کو نشہ سمجھنا تو وہ چھوڑ ہی چکی تھی ۔ دوا کے طور پر اس نے لمبے لمبے کش بھرے اور سگریٹ ختم کر کے بے حس و حرکت در دختم ہونے کے انتظار میں لیٹ گئی۔ کچھ دیر بعد اسے محسوس ہوا جیسے اس کا جسم سن ہو گیا ہے۔ جیسے اس کا وزن ختم ہو گیا ہو ۔ پھر اس کا دماغ بھی سن ہو گیا ۔ اسے یا د ہی نہیں آرہا تھا وہ کون ہے اور کہاں ہے۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی لیکن اس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ وہ گہری نیند سوگئی ۔ وہ صبح سو کر اٹھی تو درد غائب تھا۔ اسے ایک انجانی مسرت ہوئی۔ اس نے دل ہی دل میں سلیم کا شکر یہ ادا کیا۔ شام کو جب ننھے کو نشہ کرانے کا وقت آیا تو اسے ہلکی سی خوشی کا احساس ہوا جیسے لذیذ کھانوں کی خوشبو اسے اپنی طرف بلا رہی ہو۔

     Asaib Haunted Mystery urdu story

 (کلمه حق طاقت سے شریعت مانگنا اگر جرم ہے تو پارلیمنٹ کے ذریعے شریعت نہ دینا اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف مغرب کی دی ہوئی روشن خیالی پر میں ہزار بار لعنت بھیجتا ہوں۔ ( مولانا فضل الرحمن)

. اس نے جلدی جلدی سگریٹ میں سفوف بھرا، کمرے میں بند ہوئی اور دھوئیں کے مرغولے ننھے کے منہ پر چھوڑنے لگی لیکن آج وہ کسی اور ہی رنگ میں تھی ۔ آج وہ دو تین کش اپنے سینے میں اتارنے سے خود کو باز نہ رکھ سکی ۔ بچے کو جو سکون مل رہا تھا ، وہ ایک طرف حمیرا اس سے زیادہ مسرور ہو رہی تھی ، اس نے ایک سگریٹ اور بنایا۔ یہ اس کے اپنے لیے تھا اسے یاد آیا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس کا جسم تھکا تھکا سا تھا۔ بدن ٹوٹ رہا تھا لیکن اب اس میں توانائی آگئی تھی۔ اس تکلیف کے دور ہو جانے کا ہی سرور تھا لیکن کچھ ہی دیر بعد یہ توانائی، یہ سرور ، بستی میں بدل گیا۔ وہ بچے کو دودھ پلانے کے بہانے لیٹی اور پھر اسے ہوش نہ رہا کہ وہ کہاں ہے۔

 اس کی آنکھ کھلی تو کمرے میں گھپ اندھیرا تھا شاید رات ہو گئی تھی ۔ اسے خیال آیا پھر اس نے سوچا اب تو سلیم بھی آ گیا ہوگا۔ اس نے کیا کھایا ہو گا ۔ یہ خیال آتے ہی اس کا نشہ اڑ گیا۔ اس نے ننھے کو وہیں چھوڑا اور خود با ہر نکل آئی۔ سلیم ماں کے پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔ بچیاں اپنے اپنے بستر پر تھیں ۔ بہو تم زندہ ہو، مجھے تو سلیم نے روک دیا ورنہ چنیا پکڑ کے اٹھاتی ۔ غضب خدا کا نہ کھانے کا ہوش نہ پکانے کا ہوش ۔ ایسی جوانی چڑھی ہے تم پر۔

 چھوڑو بھی اماں ۔ اس کی طبیعت تو رات سے خراب ہے۔ کھانا کھا تو لیا۔ اب تو میری بچیاں سب کام کرنے لگی ہیں۔ مجھے اب کیا فکر۔ اس اطلاع پر تمیر ابھی خوشی سے جھوم اٹھی ، اب اسے بھی کیا فکر ۔ اب اس کی بچیاں اتنی بڑی ہوگئی ہیں کہ اگر وہ بیمار پڑ جائے تو گھر کی دیکھ بھال کر سکتی ہیں۔ اب آئے دن حمیرا کے پیٹ میں درد اٹھنے لگا۔ وہ درد ہمیشہ رات کو اٹھا کرتا تھا۔ جب سلیم کے خیال میں سارے شہر کے ڈاکٹر سو چکے ہوتے ہیں ۔ وہ سکریٹ بھر کر حمیرا کو دیتا اور خود بھی ایک دو بار پی کر سو جاتا۔ حمیرا خود بھی سگریٹ بھر سکتی تھی لیکن سلیم کے ہاتھ سے پینے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ ننھے کے حصے میں سے دو چارکش لینا بھی اس کی خوراک میں شامل ہو گیا تھا۔

 اب نشے نے اثر دکھانا شروع کر دیا تھا۔ اس کی بھوک کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوگئی بہت مجبور ہو کر کچھ کھا لیتی اور نہ ایک سستی کے عالم میں چار پائی پر پڑی رہتی۔ ان دنوں وہ امید سے تھی ۔ اس لیے سلیم میت سب یہ سمجھتے رہے کہ یہ حالت اس وجہ سے ہے۔ صرف وہ جانتی تھی کہ وہ اس حال کو ہیروئین کے نشہ کی وجہ سے بچی ہے۔ جب اس کی اپنی بھوک ختم ہوئی تو اس پر یہ راز کھلا کہ ننھا دوسرے بچوں کی طرح دودھ کیوں نہیں پیتا۔ وہ دل ہی دل میں نشے کے برے اثرات سے واقف ہونے لگی، لیکن تب تک وہ اس کی اتنی عادی ہو چکی تھی کہ ہیروئین چھوڑ نا اب اس کے بس میں نہیں تھا۔ وہ سلیم کے جانے کے بعد چپکے سے ٹرنک والے کمرے میں جاتی اور سگریٹ بنا کر پی جاتی۔ یہ بات نہیں تھی کہ سلیم پر اس کا راز ظاہر نہیں تھا۔ وہ چھپ کر اس لیے پیتی تھی کہ اسے ڈر تھا کہ کہیں سلیم کو یہ اعتراض نہ ہونے لگے کہ وہ بہت زیادہ پینے لگی ہے۔ وہ اس پر یہی ظاہر کرنا

 چا ہتی تھی کہ وہ صرف رات کو چیتی ہے۔ وہ بھی اس وقت جب اس کے پیٹ میں درد اٹھتا ہے۔ بچیاں دن بھر گھر پر رہنے لگیں تو حمیرا کے لیے مستقل چھپ کر پینا مشکل ہو گیا اس نے خود ہی انہیں اسکول سے اٹھایا تھا۔ مگر جب کی بات اور تھی ۔ اب اسے تنہائی درکار تھی ۔ اس نے سلیم کو مجبور کر کے بچیوں کو پھر اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ اب اسے کس کا خوف تھا۔ سلیم کام پر چلا جاتا۔ بچیاں اسکول چلی جاتیں، ساس بڑے بیٹے کی طرف چلی جاتی۔ حمیرا کو خوب موقع ملتا۔ اس غریب کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ نشے میں اعتدال و غیر بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جتنا اس کی طلب میں اضافہ ہوتا رہا وہ اتنی ہی مقدار میں اضافہ کرتی رہی۔ اب تو وہ ننھے کی طرف سے بھی غافل ہو گئی ۔ نیم غنودگی کے عالم میں بستر پر پڑی رہتی اور ننھے کے نشہ کرانے کا وقت گزر جاتا۔

 ننھا سوکھ کر کانٹا ہو گیا تھا۔ اب اسے ایسی الٹیاں ہونے لگیں کہ بند ہونے میں ہی نہیں آتی تھیں۔ سلیم اسے ڈاکٹر کو دکھانے کا قائل نہیں تھا۔ اسے ڈر تھا کہ ڈاکٹر سے دیکھتے ہی پہچان لیں گے کہ اسے نشہ کرایا جاتا رہا ہے۔ سلیم نے ڈاکٹر کو نہ دکھا کر اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں سے مار دیا۔ ننھا اس ظلم کو دو دن نہ جھیل سکا۔ اس کے پیٹ میں کیا تھا جو قے کی شکل میں نکلتا۔ وہ بار بار منہ کھولتا بند کرتا، پیچش بھی لگ گئے ، جسم میں صرف ایک سانس باقی رہ گئی تھی ۔ ایک دن وہ بھی نکل گئی۔ حمیرا میں تو اتنی طاقت بھی نہیں تھی کہ زور سے رو بھی سکتی۔ بس چار پائی پر پڑی، اس کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔ البتہ سلیم کی حالت غیر تھی۔ اسے بیٹے کا باپ بنے کا کتنا شوق تھا۔ اللہ نے یہ موقع دیا لیکن خیر ۔ وہ رو دھو کر خاموش ہو گیا ۔ حمیر ا پھر ماں بننے والی تھی۔ کیا خبر ایک مرتبہ پھر وہ بیٹے کا باپ بن جائے

 عورتیں طرح طرح کی باتیں بنا رہی تھیں کوئی کی دی تھی حاسدوں کی نظر لگ گئی۔ کسی کا خیال تھا ننھے کو آسیب چمٹ گیا تھا۔ جس نے جان لے کر ہی چھوڑی۔ کوئی کچھ نہیں جانتا تھا۔ صرف سلیم کو معلوم تھا کہ اس کی موت کا سبب کیا ہے۔ اسے سوٹا کب لگوایا تھا؟‘ تدفین سے فارغ ہونے کے بعد سلیم نے پوچھا۔ جب اس کا وقت ہو گیا تھا۔ حمیرا نے حیرت سے جواب دیا۔ کیوں جھوٹ بولتی ہے نا مراد ۔ تجھے تو اپنے نے سے فرصت نہیں ہے تو اس کا خیال کیا رکھتی ۔ نشہ کرانے میں دیر کر دی ہوگئی اور وہ مر گیا۔ سلیم ہمارا بچہ نشہ نہ ملنے کی وجہ سے نہیں ، نشہ ملنے کی وجہ سے مرا ہے ۔ حمیر نے یہ جملے اپنے تجربہ کی روشنی میں نہایت اعتماد سے کہے۔

 ر کبھی نہیں، نشہ ملتا رہتا تو وہ بھی نہیں مرتا، کبھی نہیں وہ لیکن اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا۔ اس کا ضمیر حمیرا کی دلیل سے شکست کھا چکا تھا۔ اسے ہیروئین کی زہریلی قوت کو جھٹلانے کی ہمت نہ ہو سکی۔ ہاں وہ مر سکتا تھا۔ پھول جیسی جان ہی تو تھی ۔ کیسے اور کب تک اس زہر کو برداشت کرتا۔ یہ زہر میری رگوں سے اس کی سانسوں میں اترا، اسے تو مرنا ہی تھا۔ میں نے خود اسے مارا ہے۔ میں اس کا قاتل ہوں، مجھے سزا دو، میری بوٹیاں کر کے کتوں کے آگے ڈال دو ۔ جو باپ خود نشہ کرتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ یہ زہر کسی وقت اس کی آنے والی نسلوں کو بھی منتقل ہو سکتا ہے۔ اس کا یہی حشر ہونا چاہئے۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ احساس کی آگ بھڑک رہی تھی جس میں وہ زندہ جل رہا تھا۔ زہر کو زہر ہی مارتا ہے۔ عموماً نشہ کرنے والے

 غلط نہی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ بھی ان میں سے تھا۔ اس کی رگوں میں اس وقت پچھتاوے کا زہر گردش کر رہا تھا۔ اس زہر کو مارنے کے لیے بھی کسی زہر کی ضرورت تھی۔ وہ ٹرنک کے پاس گیا اور سگریٹ بھر کر پینے لگا۔ نشے کے وقتی احساس نے اسے ہر غم سے لا تعلق کر دیا۔ اپنے بچے کی موت اسے کسی دوسرے کا حادثہ لگنے لگی ، لیکن ایسا حادثہ جس میں وہ کبھی نہ کبھی شریک رہا ہے۔ دھندلا دھندلا سا ایک تصورا بھر رہا تھا جیسے ایک لاش سامنے پڑی ہے اور بہت سی انگلیاں سلیم کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ جیسے سب کہہ رہے ہوں سلیم قاتل ہے۔ وہ اب کسی ایسے کام میں مصروف ہونا چاہتا تھا۔ کسی خودکار مشین کی طرح اس کے ہاتھ خود بخود چلتے رہیں ۔ وہ ذہنی طور پر سوتا رہے اور کام کرتا رہے ایسی مصروفیت تو ہار پرونے میں ہی ہو سکتی تھی یہی وہ کام تھا جس میں وہ اتنا ماہر تھا آنکھوں پر پٹی باندھ کر بھی لاجواب پروئی منٹوں میں کر لیتا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور دکان پر کا چلا گیا ۔ آج اس کے ہاتھ اس تیزی سے چل رہے تھے کہ کوئی مشین بھی اسے ہار پروتے دیکھ لے تو شرما جائے۔

 اس کے ہاتھ ہار پرونے میں لگے ہوئے تھے لیکن دراصل وہ بچے کے غم سے کھیل رہا تھا۔ اس کا ذہن اسی ایک نقطے پر مرتکز تھا۔ وہ اس وقت خود کو دنیا کا غم زدہ ترین شخص سمجھ رہا تھا۔ اسے خود پر ترس آرہا تھا۔ مظلومیت کی انتہائی کیفیت میں ڈوبا ہوا تھا۔ نشے کی حالت میں محسوس ہونے والے مظلومیت کے احساس نے اسے اخلاقی اقدار سے آزاد کر دیا۔ اب وہ اپنی نظروں میں مجرم نہیں مظلوم تھا اور اس کے غم کا علاج ہیروئین سے بھرے کش تھے۔ دوسرے دن اس نے پھر زیادہ ہیروئین پی۔ اپنے اند رسوئے غم کو بیدار کیا۔ مظلومیت کے تخت پر بیٹھا

 اور اپنی نظروں میں قیمتی بن گیا۔ اب کہیں اس کا معمول تھا۔ حمیرا کا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں تھا۔ وہ یہ سوچے بغیر نشہ کئے جارہی تھی کہ اس کے پیٹ میں جو ایک نئی زندگی جنم لے رہی ہے اس پر کیا گزر رہی ہوگی ۔ دھوئیں کے مرغولے کس بری طرح اسے اپنے شکنجے میں جکڑ رہے ہوں گے ۔ اب تو یہ راز اس کی بچیوں پر بھی کھل گیا تھا۔ وہ حسرت سے اپنی ماں کی طرف دیکھتیں اور رسوائی کے خوف سے چپ رہتیں ۔ اس انتظار میں ہی بہت دن گزر گئے کہ ماں پوری طرح کسی دن ہوش میں آئے تو وہ اسے سمجھا ئیں لیکن حمیرا کا یہ حال تھا کہ جب اسے ننھے کی موت یاد آتی وہ خود کو نشے میں غرق کر لیتی ۔ اس کے منہ پر لکھیاں بھنکتی رہتیں اور وہ پڑی سوتی رہتی۔ پھر نئے بچے کی آمد کا غلغلہ ہونے لگا۔

 سلیم جیسے گرتے گرتے سنبھل گیا۔ اسے ہوش آ گیا۔ کہیں یہ بچہ بھی نشے کا عادی ہوا تو ؟ یہ خیال آتے ہی اس کے گناہ اس کے سامنے صف بنا کر کھڑے ہو گئے۔ اس نے عہد کیا وہ کبھی ہیروئین نہیں پیئے گا۔ ہیروئین کو دل سے برا سمجھے گا۔ اپنا اور حمیرا کا علاج کروائے گا۔ بس اتنا ہو جائے کہ ہونے والا بچہ صحیح سلامت پیدا ہو جائے ۔ اس نے حمیرا کو بھی سختی سے ہدایت کر دی کہ وہ اس بچے کی پیدائش کے بعد نشے کے قریب بھی نہیں جائے گی ۔ لیکن اب تو یہ میرے اختیار ہی میں نہیں ہے۔ کون سی چیز ہے جو انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی ۔ انسان کے اختیار میں ہوتی ہو گی، لیکن نشہ کرنے والا انسان نہیں رہتا۔ سلیم وہ کچھ اور ہو جاتا ہے۔ مجبور، بے بس، بے اختیار مخلوق ! وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔

 و فکر مت کر تو فارغ ہو جا، میں تیرا علان کرواؤں گا۔ تو نے مجھے کیسا روگ لگا دیا ہے۔ تو تو کہتا تھا مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ ننھے کو کچھ نہیں ہوگا“۔ میری بھول تھی حمیرا مجھے معاف کر دے۔ میں پہلے ہی دن اس غلطی سے ہاتھ روک لیتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ میں تجھے معاف کر دوں گی ، بس تو مجھے ایک سگریٹ اپنے ہاتھ سے بھر کر پلا دے۔ تیرے ہاتھوں میں بڑا نشہ ہے۔ تو وعدہ کر اس کے بعد تو نہیں پیئے گی“۔ اس کے بعد میں اسے ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گی ۔ بس تو ایک مرتبہ

 اس نے سلیم کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا جس وقت نشے کی طلب ہو رہی ہونشہ مانگنے والا ہر بات ماننے پر تیار ہو جاتا ہے۔ حمیرا کی اس وقت یہی کیفیت تھی اور نشے کے ٹرنک پر سلیم کا قبضہ ۔ سلیم نے کانپتے ہاتھوں سے سگریٹ بھری اور حمیرا کی طرف بڑھا دی۔ دوسرے دن ایک مرجھائے ہوئے پھول کی طرح ایک بیٹا میرا کی آغوش میں آیا۔ پہلے بچے سے بھی زیادہ لاغر، کم وزن ، قحط زدہ ۔ " کم بخت کی کوکھ میں بچے پلتے ہیں یا کیڑے“۔ سلیم کی ماں نے بچے کے نام پر گوشت کے لوتھڑے کو چھوتے ہوئے کہا اور نفرت سے منہ پھیر لیا۔ اس بچے کو ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کہ اس کے وجود میں صرف سلیم کا نہیں حمیرا کا نشہ کرنا بھی شامل ہو چکا تھا۔ ایک مرتبہ پھر سلیم خود کو مجرم تصور کرنے لگا ۔ اس کا جی چاہا کہ اس احساس سے بچنے کے لیے زیادہ مقدار کا نشہ کرے لیکن اب وہ طے کر چکا تھا کہ وہ نشہ چھوڑ دے گا اس نے اس خیال کو جھٹک دیا اس کی آنکھوں

 سے دو قطرے سے نکلے اور بچے کے بدن پر کر کر جذب ہو گئے ۔ حمیرا کی بچیاں اور محلے کی دو تین خواتین اس کی دیکھ بھال میں لگی ہوئی تھیں ۔ اسے اتنا موقع ہی نہیں مل سکا کہ وہ اپنی طلب کو پوری کرتی اس کی حالت خراب ہونا شروع ہوگئی۔ ہاتھ پاؤں اکڑ نے لگے۔ آنکھوں سے پانی جاری ہو گیا۔ سلیم بچے کو نشے کی ضرورت ہے، اسے ایک سگریٹ پلا دوں؟“ وہ سلیم سے وعدہ کر چکی تھی کہ وہ اب نہیں پیئے گی۔ اس لیے بچے کا بہانہ کر رہی تھی تا کہ اس بہانے وہ خود پی لے۔

خبر دار ! " سلیم نے آنکھیں نکال کر کہا۔ میرے گناہوں میں مزید اضافہ مت کر میں پہلے ہی ایک جان لے چکا ہوں مگر اب نہیں ۔ اب نہیں حمیرا میں اس کا علاج کرواں گا ، نشہ پلا کر نہیں نشہ چھڑا کر۔ حمیرا کا حربہ بھی نا کام ہو گیا۔ وہ اس وقت بچے کی قیمت پر ہیروئین پی لینا چاہتی تھی ۔ اسے اب بچے کے مرنے جینے سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ یہ مرجائے گا سلیم، اسے سگریٹ پلانے دئے ۔ مر جائے تو مر جائے مجھے یا تجھے یہ احساس تو نہیں ہو گا کہ اس کی موت میں ہمارا بھی کوئی ہاتھ ہے"۔ سلیم نے ایک مرتبہ پھر سختی سے کہا اور حمیرا کے پاس سے اٹھ کر باہر نکل گیا کہ اگر بیٹھا رہا تو وہ ضد کرتی رہے گی۔

 اس کے باہر نکلنے کی دیر تھی کہ حمیرا بھو کی شیرنی کی طرح تڑپ کر اٹھی اور ٹرنک والے کمرے میں گھس گئی ۔ ٹرنک والے کمرے کو اندر سے بند دیکھ کر سلیم کو یہ سمجھنے میں قطعی دیر نہیں لگی کہ وہ اندر کیا کر رہی ہوگی۔ اسے اپنی حماقت پر غصہ آنے لگا کہ اس نے میرا کو تنہا چھوڑا ہی کیوں

    Asaib Haunted Mystery urdu story

کافی دیر بعد دروازہ کھلا تو میرا ایک آلودہ مسکراہٹ لیے کمرے سے باہر آئی ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز نگاہوں سے دیکھا لیکن زبان سے کسی نے کچھ نہیں کہا۔ وہ کہتا بھی کیا۔ اسے اس حال تک پہنچانے والا وہ خود ہی تو تھا۔ اب ان دونوں میں ایک خاموش معاہدہ ہو چکا تھا۔ سلیم اس معاملے میں دخل نہیں دے گا۔ بلکہ اس کی خوراک کا انتظام بھی وہی کرے گا اس لیے جب تک حمیرا کا مکمل علاج نہیں ہو جاتا اس وقت تک اسے نشہ کرنے سے نہیں روکے گا۔ کیونکہ حمیرا کی حالت اس سے نہیں دیکھی جاتی تھی۔ وہ جانتا تھا نشہ ٹوٹنے کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔ وہ خود بھی اسی کیفیت نے نزر رہا تھا لیکن وہ جواں مردارا دے کا پکا تھا۔ وہ تمام دکھ، تکلیف سہہ گیا۔ وہ سب سے پہلے بچے کا علاج کروانا چاہتا تھا لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی ۔ بچے نے چند دن بعد دم تو ڑ دیا

اب وہ حمیرا کو نہیں کھونا چاہتا تھا۔ اس کا علاج کروانا چاہتا تھا تا کہ اسے نشہ کے توڑ سے آسانی سے نجات مل سکے ۔ اسے معلوم تھا کہ نشے کا علاج کرنے والے منہ مانگے دام لیتے ہیں اور ہم مجبوروں کو دینے پڑیں گے۔ اس نے حمیرا کو بتائے بغیر اس کے علاج کے لیے رقم جمع کرنا شروع کر دی۔ وہ کسی زمانے میں کار سجانے ، بیج لگانے میں یکتا تھا۔ بعد میں نشے کی وجہ سے جسمانی محنت اور بھاگ دوڑی جی چرانے لگا تھا۔ اس لیے ایک جگہ بیٹھ کر ہار پروتا رہتا تھا۔ اب اس نے دوبارہ بیج لگانے ، مہندی کی چوکی سجانے اور کاروں کے کام لینا شروع کر دیئے۔ عام طور پر نشہ کرنے والوں کے اعصاب بہت کمزور ہو جاتے ہیں۔ ان میں ارادے کی قوت ختم ہو

 جاتی ہے۔ سلیم کی خوبی یہ تھی کہ ابھی تک اس میں قوت ارادی موجود تھی۔ وہ پرانا نشے باز تھا لیکن اسے اپنے آپ پر اختیار تھا اس نے اپنے نشے میں کمی کر دی تھی۔ اسے ہوش میں رہ کر حمیرا کا علاج کروانا تھا۔ حمیر اٹھیک ہو جائے تو وہ اپنا علاج بھی کرائے گا۔ زیادہ محنت اور کام کی وجہ سے اس کی آمدنی بڑھ گئی لیکن اس نے گھر کے اخراجات میں اضافہ نہیں ہو نے دیا۔ اس نے اضافی آمدنی کی ایک ایک پائی جمع کرنا شروع کردی ۔ حمیرا کے حصے کا نشہ بڑی پابندی سے ٹرنک میں رکھ دیتا تھا تا کہ وقت پر نشہ میسر نہ آنے کی صورت میں وہ ہنگامہ نہ کھڑا کر دے۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ حمیرا کا علاج لاہور لے جا کر کرائے گا تا کہ خاندان والوں کو علم بھی نہ ہو سکے اور کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے۔

 آج حمیرا کی حالت سے بے خبر وہ اپنے خیالوں میں الجھا ہوا تھا اور چھ مہینے کی کمائی کا حساب انگلیوں پر لگا رہا تھا۔ کبھی چھپائے نوٹ نکال کر گنتا، کبھی چھپا دیتا۔ حمیرا اس کے جانے کا انتظار کر رہی تھی ۔ اس وقت اسے نشے کی سخت طلب ہو رہی تھی ، لیکن سلیم کے سامنے پیتے ہوئے شرم آ رہی تھی ۔ سلیم اس حساب کتاب سے نمٹنے کے بعد معمول کے مطابق اپنے کام پر چلا گیا۔ بچیاں اسکول گئی ہوئی تھیں ۔ حمیرا کا نشہ ٹوٹنے لگا تھا۔ انگ انگ میں سوئیاں کی چھ رہی تھیں ۔ اس نے آنکھوں سے نکلنے والے پانی کو دوپٹے کے کونے سے صاف کیا اور پھرتی سے ٹرنک والے کمرے میں گھس گئی ۔ وہ بچیوں کے آنے سے پہلے ہی سگریٹ پھونک کر گھر کے کام کاج نمٹا لینا چاہتی تھی۔ راخ سے گھٹنا چار پائی کے پائے سے ٹکرایا اور وہ درد سے بلبلا اٹھی۔ لیکن اسے تو ٹریک کی طرف پہنچے کی

 جلدی تھی آج سے پہلے اتنی بے چینی اسے بھی نہیں ہوئی تھی ، اس نے گھٹنے کی تکلیف کو اہمیت نہیں دی اور لنگڑاتی ہوئی ٹرنک تک پہنچ گئی ۔ اس تگ و دو میں اس کے ہاتھ میں دبا ہوا سگریٹ دوٹکڑوں میں بٹ چکا تھا دوٹکڑے دیکھ کر اسے قطعی پریشانی نہیں ہوئی بلکہ ایک مفید ترکیب سوجھی ، وہ ہیروئین کی پڑیاں لے کر چولہے کے پاس جا بیٹھی ۔ ایک ٹکڑے میں ہیروئین بھری اور پینے لگی۔ دو ین کش لیتے ہی اسے سکون مل رہا گیا۔ اچانک اس کا خیال اس دھوئیں کی طرف گیا جو اس کے سگریٹ سے نکل کر ہوا میں تحلیل ہو رہا تھا، اسے ننھا یاد آ گیا۔ اس دھوئیں کو وہ کبھی اپنے بچے کے حصے کے طور پر استعمال کرتی تھی اور اب یہ ضائع ہو رہا تھا ۔ وہ دو پٹہ ہلا ہلا کر اس دھوئیں کو اپنی ناک کے قریب پھینکنے لگی

 سگریٹ کا ٹوٹا تھا ہی کتنا۔ اس کی انگلیاں جلیں تو اسے خیال آیا سگریٹ تو ختم ہو گیا۔ اس نے چمٹا اٹھایا اور جلتے ہوئے ٹکڑے کو جیٹے کی مدد سے سادہ سگریٹ کے دوسرے کنارے کے ساتھ لگا کہ ہیروئین والے حصے کا ذرہ ذرہ جھلسا کر پی گئی۔ حمیرا اب بہت خوش تھی کہ دو ٹکڑوں میں بے سگریٹ کو اس نے اپنی حکمت عملی سے اس قابل بنا لیا تھا کہ ہیروئین کا ایک ایک کش اس کے جسم میں داخل ہو گیا۔ آج وہ اپنی عقل مندی پر نازاں تھی کہ اس نے آہستہ آہستہ ہیروئین کو ضائع کئے بغیر پینا سیکھ لیا تھا۔ یہ اس کی ایسی فتح تھی جس کی وہ خود ہی داد دے سکتی تھی۔ یہ ایسا معرکہ تھا جس کی تعریف کوئی اور کر ہی نہیں سکتا تھا۔

 تھوڑی دیر پہلے درد سے اینٹھتے بدن کو اب قرار آگیا تھا۔ جیسے کوئی درد کی گولی کھا لے۔ وہ برتن دھونے بیٹھ گئی۔ برتنوں سے فارغ ہوئی تو جسم ایک مخصوص انداز میں وزنی ہونا شروع ہو گیا۔ اسے معلوم تھا اب کیا

 ہونے والا ہے اب کھانا پکا نا مشکل ہو جائے گا اسے یہ گوارا نہیں تھا کہ سلیم آئے اور اسے کھانا نہ ملے۔ حالانکہ دہ جانتی تھی کہ بچیاں اسکول سے آکر کچھ نہ کچھ پکا ہی لیں گی لیکن سلیم کے لیے اپنے ہاتھ سے پکانے کا تصور ہی اور تھا۔ اب تو بازار سے ترکاری لانا بھی محال ہے۔ کیوں نہ دال پکالی جائے ۔ اس نے سوچا اور دالوں کے ڈبوں کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ کچھ در بینی اونگھتی رہی۔ پھر اسے یاد آیا کہ وہ تو دال نکالنے آئی تھی۔ اسے اپنی حالت پر بے اختیار ہنسی آگئی۔ اس نے بوجھل ہاتھوں سے دال نکالی اور محن کی روشنی میں چار پائی پر بیٹھ کر دال چھنے لگی ۔ اس نے دو چار کنکر پھر ادھر ادھر کئے کہ اس کی جھپک گئی۔ پندرہ بیس منٹ بعد اسے ہوش آیا۔

     Asaib Haunted Mystery urdu story

 دال کا برتن اس کے زانو پر رکھا تھا۔ اس کا مطلب ہے میں دال بین رہی تھی ۔ معلوم نہیں کتنی دال بین چکی تھی ؟ اس نے برتن کی طرف غور سے دیکھا، کچھ بھی یاد نہیں آرہا تھا۔ بنی ہوئی دال کون سی تھی، اس نے دونوں ڈھیریوں کو ملا دیا اور ایک بار پھر دال چنا شروع کر دی۔ پہلے سے زیادہ دال چن کر وہ پھر دال کے تھال کے اوپر ہی اونگھ گئی۔ میں پچیس منٹ بعد اس کی اونگھ ختم ہوئی تو پھر نئے سرے سے دال ملا کر دوبارہ اپنے کام میں لگ گئی۔ وہ اسی طرح دال ملاتی رہی الگ کرتی رہی اور دو پہر ہو گئی ۔ اسے اپنا ہوش میں کب تھا کہ کچھ اور دیکھی ۔ اس نے دیکھا ہی نہیں کہ عورتیں اور بچے دیواروں پر لٹکے تما شا دیکھ رہے ہیں ۔ منی کی اماں پاگل ہو گئی ہے"۔ اری میں نے سنا ہے ہیروئین پیتی ہے ہیروئین" بہن اللہ بچائے اس نشے سے“۔ لو پھر سو گئی۔

 "اے لو اٹھ گئی۔ تبصرے ہو رہے تھے وہ ان سب سے بے خبر اپنے سلیم کے لیے کھانا پکانے کی تیاری کرتی رہی ۔ حمیرا کی بڑی بیٹی اسکول سے آئی تو صحن کی دیواروں پر میلہ لگا ہوا تھا۔ بیٹی نے پہلے تو دیواروں پر بیٹھے بچوں کی خبر لی پھر ماں کو گھسیٹتی ہوئی کمرے میں لے گئی۔ تم سے کس نے کہا تھا کہ صحن میں بیٹھ کر دال چنو اور ہمیں بے عزت کراؤ۔ اس جگ ہنسائی سے تو اچھا تو تم زہر دے کر سلا دیتیں اپنی آنکھوں سے ہمیں یہ سب کچھ تو نہ دیکھنا پڑتا۔ اس نے ماں کو بستر پر لٹایا اور ایک چادر سے اس کے جسم کو اچھی طرح ڈھانپ دیا۔ سکھیاں چاٹ جائیں گی ، چادر اوڑھے پڑی رہنا ۔ بیٹی نے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔

 عجیب بات تھی یا تو حمیرا کو اپنے تن بدن کا ہوش نہیں تھا یا اب اس کا نشہ ہرن ہو چکا تھا۔ اس کا ذہن پیچھے کی طرف دوڑ رہا تھا۔ وہ کتنی با عزت زندگی گزار رہی تھی ۔ آج اس کی اولاد بھی اس سے بے عزتی محسوس کرتی ہے۔ سلیم نشہ کرتا ہے تو کوئی اسے کچھ نہیں کہتا۔ ابھی اس کی قسمت میں مزید رسوائی لکھی ہوئی تھی کہ اس کے والدین بھی اسی وقت اس سے ملنے آگئے ۔ عورتیں تو بے بات کی بات بنا لیتی ہیں۔ یہاں واقعہ ہی ایسا ہو گیا تھا۔ حمیرا کے گھر میں بعد میں داخل ہوئی ، پورا قصہ اس گلی میں کھڑے کھڑے سن لیا ، شرمندگی سے زمین میں گڑ گئی۔ وہ بڑی مشکل سے عورتوں کو جھٹلاتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ لڑکیاں ایک کونے میں بیٹھی رو رہی تھی ۔

 کہاں ہے تمہاری ماں ؟“ اندر کمرے میں سورہی ہے ۔ ” سورہی ہے یا نشہ کئے پڑی ہے؟“

بچیاں اس بات کا کیا جواب دیتیں انہوں نے دوسرے کو دیکھا اور سر جھکا لئے ۔ بولتی کیوں نہیں ب سے یہ حالت ہے، باپ کے عیب تو چھپاتی تھیں، ں کے کرتوت پر بھی پردہ ڈالتی رہیں۔ . ہم کیا بولتے ، ابا خود پلاتا تھا۔ اس کو بھی دیکھ لیں گئے“ حمیرا کے باپ نے غصے سے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔ " جاؤ جی تم اسے باہر نکال لاؤ ۔ ناک کٹوا دی کم بخت نے ہماری“۔ بڑے میاں نے بیوی سے کہا۔ حمیرا کی ماں اندر گئی اور اسے باہر لے آئی ۔ اس کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی ۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے تھے، چہرہ زرد، بال بکھرے ہوئے میلے ، کچھ نشہ کچھ شرمندگی۔ خوب میاں کی طرف داری کی ۔ اس کا راز بھی گنوایا ، اپنا آپ بھی گنوایا ، لیکن یہ نہیں سوچا کہ ان جوان لڑکیوں کا ہاتھ پکڑ نے اس گھر میں کون آئے گا۔

     Asaib Haunted Mystery urdu story

 حمیرا کا نشہ تو بہت پہلے اتر چکا تھا۔ ان باتوں نے اس کے ہوش ٹھکانے لگا دیئے اب وہ غصے میں تھی ۔ اسے سلیم پر غصہ تھا جس نے اسے یہ لت لگائی۔ اسے بیٹیوں پر غصہ تھا جنہوں نے اس کی بے عزتی کی ۔ کیا کرتی ؟ دوا کے لیے ڈاکٹر کے پاس نہیں لیے نہیں دی تھی کہ وہ اسے ہیروئین پلاتا پھرے ۔ پھر لے جاتا تھا پڑ یا پلا دیتا تھا۔ آہستہ آہستہ عادت پڑ گئی۔ اس نے تو غصے میں یہ تک بتا دیا کہ وہ ننھے کو بھی نشہ کراتا تھا۔ اسی نشے نے اس کی جان لے لی۔ وہیں بہت ہو چکا ، ہم نے پھول سی بچی اس وہ حمیرا اسے مخاطب ہوا۔ ابھی اسی وقت ہمارے ساتھ چل ، یہاں رہی تو وہ اسی طرح مار دے گا تجھے بھی"۔ حمیر اغصے میں تو تھی ہی بیٹیاں اسے روکتی رہ گئیں لیکن واپنے والدین کے ساتھ چلی گئی۔ صحن میں نام اتر رہی تھی کہ سلیم گھر میں داخل ہوا۔

 تمہاری ماں کہاں ہے۔ لڑکیوں نے اسے پورا قصہ سنا دیا۔ وہ پریشان گیا۔ " تم گھر میں رہو، میں ابھی تمہاری ماں کو لے کر تا ہوں۔ بہت کچھ سوچتا ہوا وہ سسرال تک پہنچ گیا۔ وہ یہاں سینکڑوں مرتبہ آیا تھا لیکن آج کی بات اور تھی، احساس جرم سے اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے سوچا وہ کچھ بھی کہے گی میں خاموشی سے سن لوں گا آخر قصور بھی تو میرا ہے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دروازے کا پردہ اٹھایا اور اپنے سالے کو آواز دی۔ کون ہے بھئی؟ اس کے سر نے آواز دی۔ میں ہوں سلیم۔ و ہیں رہنا میں آتا ہوں۔

 کچھ دیر خاموشی کے بعد اندر سے آئی ۔ وہ دروازے پر کھڑا حیران تھا ، یہ کون سا طریقہ ہے استقبال کا ۔ اس سے پہلے بھی ایسا نہیں ہوا اس کا مطلب ہے سب ہی مجھ پر غصہ کر رہے ہیں۔ تم یہاں کیا لینے آئے ہو؟ اس کے سرتے پردے سے باہر منہ نکالتے ہوئے کہا۔ میں حمیرا سے ملنے آیا ہوں۔ اسے بلائیے۔ وہ تمہاری شکل دیکھنا بھی نہیں چاہتی۔ ایسا کیا کر دیا ہے میں نے ؟“ اسے ہیروئین پر لگا کے پوچھتے ہو کیا کیا ہے میں نے ، ہم نے بے عیب بچی تمہارے حوالے کی تھی تم نے اپنی ذلالت دکھائی۔ سلیم کو اپنی غلطی کا احساس تھا اس لیے نرم پڑ گیا۔ ابا جی میری بات سنو، بندہ بشر ہے غلطی ہو ہی جاتی ہے، مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے لیکن اس کا مرض ا علاج نہیں ۔ میں اس کا علاج کرواؤں گا۔ ٹھیک ہو

 جائے گی۔ علاج ہم خود کرالیں گے۔ تم چلتے پھرتے نظر آؤ، آئندہ اس طرف کا رخ کیا تو ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ سلیم نے سوچا آخر والدین ہیں۔ حمیرا کی حالت دیکھ کر آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس نے یہ ذلت برداشت کی اور چپ چاپ گھر چلا آیا۔ اماں نہیں آئی ؟ بچیوں نے سوال کیا۔ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ، دو تین دن کے بعد جا کر لے آؤں گا۔ رات کو وہ سونے لیٹا تو اس کے کانوں میں حمیرا کی چیخیں گونجنے لگیں ۔ جب اسے نشے کی طلب ہوگی تو اس پر کیا بیتے گی

 ، اس کا نشہ کون پورا کرے گا، انہیں کیا معلوم یہ نشہ چھوڑ نا کتنا تکلیف دہ عمل ہے اس کے لیے تو دافع درد کی گولیاں لینی پڑتی ہیں تا کہ تو ڑ کی تکلیف ذرا کم ہو جائے ۔ سلیم کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی تھی کہ اچانک حمیرا کو کیا ہو گیا تھا۔ وہ مجھ سے کیوں ملنا نہیں چاہتی۔ اس نے تو دن رات محنت کر کے کافی رقم بھی اس کے علاج کے لیے جمع کر لی تھی لیکن ان لوگوں نے اس کی بات سننا تک گوارا نہیں کیا۔ جب تک حمیرا گھر چھوڑ کر نہیں گئی تھی اس کا علاج کرانے کی گرم جوشی میں سلیم نارمل زندگی کی طرف لوٹنے لگا تھا اسے کام کے دوران بہت کم نشے کی یاد آتی

۔ اس طرح بغیر کوشش کے ہی وہ آہستہ آہستہ نشہ نہ کرنے والی پہلی عادت کی طرف لوٹ رہا تھا لیکن سرال والوں کی بدسلوکی نے اسے خود اپنی نظروں میں گرا دیا تھا۔ حمیرا کی جدائی نے اس کے دل کو محسوس کر رکھ دیا۔ اب اس کا کام میں جی نہ لگتا تھا۔ اس نے اپنے غم کو دوبارہ نشے میں بھلانے کی کوشش کی اور نشے کی

دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ حمیرا کے گھر والوں نے یہ سوچا تھا کہ سلیم کی وجہ سے وہ اس عادت کا شکار ہوگئی ہے۔ جب اسے نشہ نہیں ملے گا تو خود بخود یہ عادت چھوٹ جائے گی لیکن نشے کا تو ڑ شروع ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی حمیرا کی حالت غیر ہونا شروع ہو گئی۔ اس کو پیچش لگ گئے ، آنکھوں سے پانی جاری ہو گیا اور جسم میں درد محسوس ہونے لگا وہ گھر سے باہر بھاگ جانے کی کوشش کرنے لگی ۔ اپنے سلیم کے پاس جانے کے لیے التجا ئیں کرنے لگی لیکن اسے رسیوں سے باندھ دیا گیا تا کہ سلیم کے پاس جا کر دوبارہ نشر نہ کرنے لگ جائے۔ دو دن گزرنا مشکل ہو گئے ۔ حمیرا کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی ۔ اس کی چیچنیں دل دہلاتی تھیں۔ وہ ایک ایک کے آگے ہاتھ جوڑتی تھی، پڑیا مانگتی تھی یا اپنی موت کی دعائیں مانگتی تھی پھر اس نے اپنا منہ اور جسم بھی نوچنا شروع کر دیا۔ اب اس نے ہیروئین مانگنا بھی چھوڑ دیا تھا بس ہر ایک سے التجا کرتی کہ خدا کے واسطے مجھے مار دو مجھے اس جسمانی تکلیف سے نجات دلا دہ۔

گھر والوں سے اس کی تکلیف دیکھی نہ گئی اور انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ لت اتنی آسانی سے نہیں چھوٹ سکتی۔ اس کے لیے انہیں علاج کروانا پڑے گا۔ حمیرا کے والد نے ایک ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ اس نے بتایا اگر زبردستی نشہ چھڑوانے کی کوشش کی گئی تو اس کے اثرات منفی بھی ہو سکتے ہیں اور مریض کو جب موقع ملے گا وہ سب کر نشہ کرے گا اسے معمول کے مطابق نشے کے دوران ہی نشہ چھوڑنے کی طرف راغب کرنا ہو گا۔ اگر ایسا ہو جائے تو مریض آسانی سے نشہ چھوڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اب وہ با قاعدگی سے نشہ کر رہی تھی لیکن یہ نشہ اسے اسے شرط پرٹل رہا تھا کہ اگر سلیم کے پاس جانے کا

   Asaib Haunted Mystery urdu story

 نام لیا تو پھر کمرے میں بند کر دی جائے گی۔ اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی ۔ نشہ کرنے کے بعد اپنے گناہ گار ہونے پر تاسف کرتی۔ اس کے تمام بکھرے خیالات اس بات پر مرتکز ہو جاتے کہ وہ اپنے دو بیٹوں کی قاتل ہے۔ یہ خیال آتے ہیں وہ سینہ کوبی شروع کر دیتی۔ ان سب کو بددعائیں دیتی جنہوں نے نشے کی سنگین نتائج سے اسے باخبر نہیں کیا تھا۔ اسے یہ نہیں سمجھایا تھا کہ نشہ پیدا ہونے والی اولاد کے خون میں بھی شامل ہو سکتا ہے۔ وہ زور زور سے چلاتی کہ مولوی صرف گم ہونے والے بچوں کا اعلان مسجد میں کرتا ہے۔ عورت کو یہ کیوں نہیں بتاتا کہ نشہ سب سے خطرناک چیز ہے جو پیدا ہونے والوں کی زندگی بھی لے لیتا ہے۔ مجھ جیسے زندوں کو مردہ بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے بال نوچتی منہ پر تھپڑ مارتی اور پھر بے سدھ ہو کر بستر پر گر جاتی

 رفتہ رفتہ اسے اپنی حالت پر خود ترس آنے لگا اب وہ اپنے علاج کا تقاضا کرنے لگی۔ پہلے اسے نشہ 1 ٹوٹنے پر صرف ہیروئین پینے کا خیال آتا تھا اب اس ہیروئین سے نجات حاصل کرنے کا خیال دل میں جاں گزیں ہو گیا تھا۔ یہی مناسب وقت تھا۔ ڈاکٹر نے بھی بتایا تھا کہ جب مریض خود چھوڑنا چاہے تو ڈاکٹروں کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں ورنہ اکثر ناکامی ہوتی ہے اب وہ خود تیار تھی لہذا اسے ہسپتال داخل کروایا دیا گیا۔ سلیم مسلسل تباہی کے راستے پر جارہا تھا حد سے زیادہ چڑ چڑا ہو گیا تھا۔ بینائی برائے نام رہ گئی تھی ، کمزور اتنا ہو گیا تھا کہ دو قدم چلتا تو تھک کر بیٹھ جاتا۔ اب اسے اپنے نشے کے علاوہ کسی کی پروا نہیں تھی ۔ حمیرا کا خیال آجاتا اور اداس ہو جاتا کام کرنے کی سکت اب اس میں تھی ہی نہیں ۔ حمیرا کی صحت مندی کا خواب بکھر کر رہ گیا تھا۔ اس کی تمام جمع پونچی ہیروئین پر خرچ ہو چکی

 تھی۔ اب تو وہ سڑک کے کنارے بیٹھ جاتا۔ کوئی رحم کھا کر کچھ دیے دیتا تو اس سے ہیروئین کی پڑیا خرید لیتا۔ چار مہینے مسلسل علاج کے بعد حمیرا گھر آئی تو بالکل صحت مند تھی کمزور ضرور ہوگئی تھی لیکن ہیروئین سے نجات مل چکی تھی۔ حمیرا کے والدین نے اسے اپنے ہی گھر ٹھہرالیا اور گھر کے تمام افراد نے حمیرا کی بیٹیوں کے بتائے اصولوں کے مطابق ایک مخصوص رویہ اپنا لیا۔ جب سال بھر گزر گیا تو ڈاکٹر نے اسے سلیم کے گھر جانے کی اجازت دے دی۔ حمیرا خوشی خوشی گھر جانے کی تیاریاں کرنے لگی ۔ جب وہ ہسپتال میں تھی اسی وقت سے اسے سلیم یاد آنے لگا تھا لیکن وہ چاہتی تھی کہ صحت مند ہو کر اس کے سامنے جائے تو وہ مجھے دیکھے گا تو کتنا خوش ہوگا۔

 اس نے لڑکیوں کو ساتھ لیا اور اپنے گھر پہنچ گئی۔ اس کے دروازے کے سامنے بہت سے لوگ جمع تھے۔ لو حمیرا تو آگئی۔ مرنے کا انتظار ہی کر رہی تھی۔ حمیرا کے کانوں میں آواز میں ضرور آئیں لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ یہ کس کے مرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی مجمع کے قریب پہنچ گئی ۔ لوگ ادھر اُدھر ہٹ گئے۔ چار پائی پر سلیم کی میت رکھی تھی۔ سڑک کے کنارے مرا پڑا تھا۔ محلے کے لوگ ابھی اٹھا کر لائے ہیں۔ تجھے خبر کرنے والے تھے کہ تو خود ہی آگئی۔ حمیرا گھٹنوں کے بل جھکی اور سلیم کے ہاتھ میں کسی آسیب کی طرح دبا ہوا سگریٹ اس کی انگلیوں سے الگ کر کے دور پھینک دیا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post