![]() |
Wasiyat urdu story urdu khani wasiyat |
وصیت
"The یہ دلچسپ واقعہ ایک یورپین مورخ مسٹر فلپس ڈی ویل کی کتاب Indian "Nawab سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب 1903ء میں لندن سے شائع ہوئی تھی اس کے کچھ حصے آج بھی دہلی مرکزی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ اس کتاب میں فلپس ڈی ویل لکھتا ہے کہ ریاست گوالیار کے ایک چھوٹے سے علاقہ میں ایک نواب فیض محمد کی 4 کوس کے برابر علاقہ کی رقبہ جائیداد ملکیت تھی ۔ نواب صاحب کی یہ جگہ دراصل کسی چیونٹیوں بھرے کباب کے برابر تھی۔ ان کی اس جائیداد میں ان کے سگے سوتیلے چچا تاؤں کی اولادوں اور بذات خود ان کی بغیر نکاح کی رکھی ہوئی رکھیل نام نہاد بیوی کے بطن سے پیدا حرام زادے، عیاش دولڑ کے اس سے جائیداد کا بٹوارہ مانگ رہے تھے
نواب صاحب نے ایک طرف جھگڑے کی جگہ کو دیکھا دوسری جانب اپنی جوانی کی غلطی کا احساس کرتے ہوئے محسوس کیا کہ اب یہ ساری جائیداد گوروں کے ہاتھوں فروخت کر کے اپنی بقیہ زندگی آرام و سکون سے گزاریں۔ نیز انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ انہیں ٹی بی کا کچھ عارضہ لاحق ہے اور گوروں نے ویسے بھی ان کی تمام جائیداد پر قبضہ کر لیتا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں جب گوروں نے فتح پائی تو اس نواب فیض محمد کو نہ چھیڑا کیونکہ اس نے اس جنگ میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ ایک دن فاتح گوالیار
کرنل سلپ نے مذکورہ نواب سے پوچھا کہ بتلاؤ کہ آیا کہ تم اپنے علاقہ میں جوں کے توں نواب رہنا چاہتے ہو یا اسے فروخت کرو گے لیکن تمہارے ساتھ قیمت کے معاملہ میں زیادتی نہ ہوگی۔ نواب نے اسے جواب دیا کہ میری اس نوابی اور دبدبے کو کون تسلیم کرے گا۔ میں ویسے ہی اس ناسور سے جان چھڑانا چاہتا ہوں لہذا بہتر یہ ہی ہے کہ آپ اسے خرید لیں۔ نواب فیض محمد نے اپنے ملکیتی علاقے کے اس زمانہ میں انگریزوں کے ہاتھوں فروخت کر دیئے۔ انہوں نے 19 لاکھ روپے طلب کیے۔ اس زمانہ میں آٹا 90 پیسے من تھا اس قیمت کو آج کی قیمت سے ملا ئیں تو یہ رقم کہاں سے کہاں جاتی ہے ) نواب صاحب نے یہ رقم گوروں سے لی اور اسے اپنے منشیوں، کارندوں کے سامنے تجوری میں رکھ دی اس رات دوسرے پہر یہ ہوا کہ نواب صاحب زخمی
حالت میں اپنے محل کے باہر پائے گئے بقول ان کے کہ انہیں لوٹ لیا گیا ہے۔ 1900000 لاکھ نا معلوم ڈاکو لے کر بھاگ گئے ہیں اس کے بعد یہ ہوا کہ نواب صاحب کو کچھ عرصہ تک تو خریدار گوروں نے ان کے محل میں رہنے کی اجازت دی لیکن بعد میں انہیں کہا وہ محل کا قبضہ دیں کہیں اور چلے جائیں نواب صاحب کی پہلے ہی اپنے رشتہ داروں بیوی (رکھیل ) بیٹیوں، سے نہ بنتی تھی ۔ انہوں نے اپنے محل سے ہٹ کر تھوڑی دور ایک چھوٹا سا مکان لے لیا ان کے پاس صرف اتنے روپے پیسے تھے کہ عزت سے گزارہ ہو رہا تھا رفتہ رفتہ یہ نوبت آگئی کہ ان کے پاس صرف اتنے پیسے رہ گئے کہ ان کا گزارہ ہونا مشکل ہو گیا تھا بس روٹی کھا رہے تھے بعد میں نوبت فاقوں تک آگئی وہ مانگ مانگ کر کھانے لگے۔ دوست یار اور دیگر جاننے والے فصلی بٹیروں کی مانند اڑ گئے ان کے بیٹے اور بیوی نے بھی ان کو دھتکار دیا تھا نواب صاحب شدید بیمار رہنے لگے ان کے چند پرانے جانے
والے دوست خدمت گارا ان کے پاس رہتے تھے۔ نواب صاحب ایک دن رضائے الہی سے وفات پا گئے۔ انہوں نے مرنے سے پہلے دلچسپ وصیت یہ کی کہ انہیں رات کے اندھیرے میں دو بجے سپر د خاک کیا جائے۔ ان دنوں گوالیار میں شدید کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی ) کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ نواب صاحب سٹھیا گئے تھے لہذا یہ اچھوتی وصیت اس کا رد عمل ہے ان کی وصیت کے متعلق جب ان کی نا خلف آل اولا د کو کہا گیا تو انہوں نے اسے پاگل قرار دیتے ہوئے سخت سردی میں جنازہ میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ مؤرخین کے مطابق جنازہ گاہ میں دیکھا گیا کہ سخت سردی میں رات دو بجے نواب فیض محمد کے جنازے کو اٹھانے والے صرف اس کے چند پرانے دوست اکا دکا عزیز اقارب اور ایک مخلص نوکر موجود تھا جب نواب فیض محمد ( مرحوم
کو اس کے چاہنے والوں نے سپر د قبر کر دیا تو ان لوگوں کے درمیان ایک شخص نے سب کو پکار کر کہا کہ میرے پاس نواب فیض محمد کی ایک اور وصیت موجود ہے وہ ذرا سنتے جائیں سب کے چلتے قدم رک گئے اس شخص نے وصیت پڑھنا شروع کی اس وصیت میں نواب فیض محمد نے لکھا کہ دراصل میری دولت مبلغ 1900000 انیس لاکھ چوری نہ ہوئے تھے یہ ڈرامہ میں نے خود ہی مصلحت کے تحت رچایا تھا تم لوگوں نے مجھے اس کڑا کے کی سردی میں رات دو بجے دفتایا ہے حالانکہ میرا برا وقت سمجھتے ہوئے میرے اپنے خونی رشتہ دار بھی میرا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ یہ تمہاری مجھ سے محبت کی سب سے بڑی زندہ مثال ہے صرف تم چند دوست میرے وفادار ہو لہذا میری یہ وصیت ہے کہ میرے پاس 1900000 لاکھ روپے جو موجود ہیں جو کہ میں نے اپنی بیٹھک میں فلاں " جگہ دفتا ر کھے ہیں۔ لہذا تم سب شریک جنازہ یہ رقم 1
آپس میں برابر تقسیم کر لو۔ بقول مؤرخ فلپس ڈی ویل نواب فیض محمد کی وصیت کے مطابق تمام شرکا جنازہ جن کی تعداد 14 تھی ان کے درمیان 19 لاکھ روپے کی خطیر رقم تقسیم کر دی گئی۔