kardwa such uru story such urdu khani

kardwa such uru story such urdu khani


                  کڑوا سچ 

سردار شاہ رنجیت سنگھ کے دور میں سیالکوٹ کے علاقہ میں ایک بہت بڑا بدمعاش گزرا ہے۔ مؤرخین کے مطابق یہ کوئی ایسا ویسا بد معاش نہ تھا اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ بدمعاشوں کا بدمعاش تھا اس کے زیر سایه شراب، جوا، زنا اور دیگر خرافات کے اڈے چلا کرتے تھے ۔ قتل، چوری، ڈکیتی کے بڑے سے بڑے چور ڈاکو کو اس کے پاس پناہ لیتے تھے رنجیت سنگھ اور اس کے بیٹے شیر سنگھ کی فوجوں اور پولیس کی جرات نہ تھی کہ


 اس پر ہاتھ ڈال سکیں۔ سردار شاہ کی جسمانی حالت یہ گی کہ اس کا قد انتہائی حد تک بلند ہاتھ پاؤں مضبوط اور سر مستقل گنجار ہتا تھا۔ اس کی سرخی مائل بڑی بڑی بادامی آنکھیں جب مدمقابل کی نظر میں پڑتی تھیں تو وہ ایک لمحے کو ہ دال ضرور جاتا تھا۔ یہ صبح و شام کے وقت اپنے مخصوص گھوڑے پر بیٹھ کر سیر سپاٹا کیا کرتا تھا اس کی سواری جہاں سے گزرتی تھی ادھر کے باسی خوف کے مارے اپنے گھروں کے دروازے بند کر کے کسی چو ہے کی مانند دبک جاتے تھے۔ وہ جہاں سے گزرتا ہر کوئی سلام، پر نام یا نمستے نہ کرتا تو وہ اسے اپنی نگاہ میں رکھ لیتا تھا اور پھر اسے اپنے بدمعاش آدمیوں کو بھیج کر اپنے اڈے میں بلا کر اس کی بہت تذلیل کرتا یا سزا کے طور پر ان کی لڑکی اٹھا لاتا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ سردار شاہ اپنے مخصوص گھوڑے پر بیٹھا محلہ شانتی نگر کی گلیوں سے گزر رہا تھا تو


اس محلے کے تمام بزرگوں ، عورتوں اور جوانوں نے حسب عادت سلام نمستے ، پر نام، رام رام کیا لیکن ایک بوسیدہ بڑھے نے اسے سلام نہ کیا اسے یہ بات دل پر لگی۔ اس نے اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہوئے اپنے چند بد معاش بھیج کر اس بڑھے کو اس کی لڑکی سمیت اپنے اڈے میں اٹھوالیا۔ اس کے اڈے میں کھڑے بوڑھے نے اسے کہا میرے قریب آؤ سردار شاہ نے پوچھا کیوں؟ بوڑھے نے کہا قریب آئے گا تو تیرا ہی فائدہ ہے آج میں تجھے وہ بات بتلاؤں گا کہ تیرے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی۔ اس اڈے میں کھڑے اس کے بدمعاش نے کہا کہ سردار صاحب یہ بڑھا اپنی جان بچانے اور اپنی بیٹی کی عزت بچانے کی خاطر آپ کو الجھا رہا ہے۔ سردار شاہ بولا نہیں یہ بڑھا مجھ سے ڈرا نبھی نہیں اس کے دامن میں ضرور کوئی خاص بات پوشیدہ ہے جو یہ جھاڑ نے والا ہے۔


 سردار شاہ انتہائی تجس کے عالم میں اس کے قریب گیا تو اس بڈھے نے کہا میرے قریب اپنا کان کر سردار شاہ نے جب اس کے قریب اپنا کان کیا نہ جانے کیا اس نے ایسی بات کی کہ وہ غصے سے چلایا نہیں ایسا نہیں ہو سکتا اس کے قریب کھڑے اس کے پیچے حیرت زدہ اور پریشان ہو گئے۔ کیا ہوا استاد جی؟ سردار شاہ نے منہ سے کف اڑاتے ہوئے انتہائی سیخ پا ہو کر کہا۔ یہ بڑھا کہتا ہے کہ میں حرام زادہ ہوں اور میرا تو دل کر رہا ہے کہ اس لڑکی کی عزت سے کھیلواڑ کرنے سے پہلے اس کی تکا بوٹی کر دو۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں تو حرام زادہ ہے اور میرا خون ہے یہ ناممکن ہے میرے باپ کا نام تو مراد شاہ تھا میری ماں اس کے نکاح میں تھی۔ سردار شاہ نے پھر انتہائی غصہ کے عالم میں اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے کہا


تجھے اگر میری بات پر یقین نہیں آتا تو ذرا اپنے نقش تو میرے ناک نقشہ سے ملا کر دیکھ۔ بلکہ تو نہ دیکھ اپنے ان کتوں کو کہہ کہ خود ہی فیصلہ کریں ساتھیوں نے جب اس بڑھے اور سردار شاہ کو بغور دیکھا تو واقعی اس کے چہرے مہرے نقش و نگار سے میل کھا رہے تھے (وہ اپنی جگہ حیران ہو کر رہ گیا بڈھے نے اپنے چہرے پر طنزیہ انداز کی مسکان سجاتے ہوئے کہا کہ تو مزید پریشان نہ ہو تجھے اگر اپنے خون میں ملاوٹ کا ذرا بھی شک ہے تو یہ بات تو اپنی ماں سے پوچھ وہ ابھی زندہ ہے۔ مری نہیں ہے جو نکی جونکی یہ تم نے کیا کہہ دیا یہ تو میری ماں کو میرا باپ محبت سے کہتا تھا۔ بابا جی ، بابا جی نہیں مجھے اپنا باپ کہہ ۔ حرام زادے بیٹے تو نے وہی کام کیا جس کی کسی حرام زادے سے توقع کی جا سکتی تھی بعد میں یہ ہوا کہ سردار شاہ نے تصدیق کے

لیے اپنی ماں کو بلایا ماں منہ سے کچھ نہ بولی وہ اپنی آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے اس بڑھے کو دیکھنے کے بعد سردار شاہ کے سامنے ہاتھ جوڑ اکڑوں بیٹھ گئی۔ سردار شاہ نے خاموشی سے اپنے ماتھے پر آیا پسینہ پونچا اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی گن سے پہلے اپنی ماں کو فائر کر کے مارا اور پھر اس بڑھے کے قدموں میں دھڑام سے گرنے کے بعد اس کے قدم چومے اسے گلے لگایا۔ دونوں باپ بیٹے لپٹ کر کافی دیر روتے رہے۔ سردار شاہ نے اپنے بدمعاشوں کو وصیت کی دونوں (بڑھے، لڑکی کو باعزت طور پر ان کے ڈیرے پر چھوڑ کر آؤ اور اس کے بعد میرے اس خرافات بھرے ڈیرے کو آگ لگا کر بھسم کر دینا۔ سردار شاہ نے پھر انتہائی پریشانی کے عالم میں اپنے سر پر گولی مارلی۔ از کتاب ”کل یوں ہوا تھا‘ از ڈاکٹر کلیام سنگھ طبع 1973

Post a Comment

Previous Post Next Post