یہ دلچسپ واقعہ ایک انگریز جج مسٹر عمیل نے اپنی کتاب ”انڈیا کا جدید قانون میں تحریر کیا ہے۔ 1869ء کی بات ہے کہ صوبہ پنجاب میں جالندھر کے مقام پر تین گہرے دوستوں کو گھومتے پھرتے سر راہ ایک چمکتا ایسا پتھر ملا جسے وہ قیمتی ہیرا سمجھے وہ جب ایک جوہری کے پاس گئے تو اس نے انہیں بتایا کہ یہ بہت نایاب قیمتی ہیرا ہے۔ لہذا اس کی قیمت اس وقت کے لحاظ سے 6000 روپے ہے اب تینوں دوستوں کے درمیان اس ہیرے کے حصول کی خاطر لالچ اور کھٹاس کا مادہ پیدا ہو گیا۔ دوستی یکدم دشمنی میں تبدیل ہوگئی ایک کہتا تھا کہ میں نے اسے پہلے دیکھا اور دوسرا دعوی کرتا کہ میں نے دیکھا جبکہ تیسرا کہتا ہے کہ یہ پہلے مجھے ملا ہے لہذا اس پر میرا حق ہے بہر حال متینوں اس ہیرے کو
ہتھیانے کی خاطر لڑ پڑے اور لڑے بھی ایسا کہ ایک کا سر پھٹا ، دوسرا مارا گیا اور جو تیسرا تھا اسے پولیس نے دوسرے کے قتل کے الزام میں دھر لیا۔ پہلے دوست کو پولیس نے گرفتار تو کیا مگر دوران تفتیش وہ بے گناہ پایا گیا۔ لہذا اسے رہا کر دیا گیا۔ اب مقدمہ قتل کا تھا تیسرے دوست پر اپنے دوسرے دوست کے قتل کا مقدمہ شہادتوں واقعات سے ثابت ہو گیا۔ لہذا بقول حج عمیل کے کہ جب میں نے حالات و واقعات شہادتوں کا بغور معائنہ کیا تو %100 تیسرا دوست قاتل پایا گیا قانون کے مطابق مجھے اسے سزائے موت سنانی پڑ گئی۔
جب وہ مجرم اپیل میں گیا تو اس کے وکیل نے دیکھا کہ اب تمام شہادتیں حالات میرے موکل کے خلاف ہیں تو اس نے C.13 کے تحت عدالت میں یہ درخواست دی کہ میرے موکل کو موقع دیا جائے کہ وہ حاصل شدہ قیمتی ہیرے سے دستبردار ہو کر مقتول خاندان کو دے دے گا اور اپنے دعویٰ سے دستبردار ہو گا اس پر فاضل جج نے کہا کہ فلاں قانون کے تحت تو واقعی اس ہیرے پر حق اس پارٹی کا ہے جسے ملا ہے (برٹش حکومت ) اس کی حق دار نہ ہے لہذا اس کے اصل مالک وہ ہی ہیں جنہوں نے اسے ڈھونڈا ہے لیکن یہ بعد کی بات ہے کہ اسے کون حاصل کرے گا بہر حال تیسرے موت کے سزا یافتہ دوست نے مقتول فیملی کو پٹایا کہ وہ اس ہیرے کو بطور خون بہا تاوان لے لے اور اسے بخشش دے اور نیز وہ اپنے دعوئی ملکیت سے دستبردار ہوتا ہے۔
قاتل دوست کے حامیوں نے مقتول پارٹی کو اس حاصل شدہ ہیرے کے لالچ میں گھیر لیا۔ مقتول پارٹی نے ہیرے کے عوض اسے معاف کر دیا بعد میں یہ ہوا جب مقتول پارٹی جو ہری کے پاس اس کی قیمت کے تعین کے لیے گئے تو جوہری نے اسے اچھی طرح پر کھ کر
کہا۔ اے بیوقوفو عقل کے اندھو یہ تو محض ایک فیروزه آبادی فانوس کا عام چمکتا شیشہ ہے اس کی قیمت سوائے چمکتے ٹکڑے کے کچھ بھی نہیں ہے بالکل آخر میں مسٹر شمیل نے طنزیہ طور پر جملہ لکھا ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی ۔
ٹیکس چوری کی سزا
بدھ مت دور کے جتنے بھی حکمران گزرے ہیں ان میں زیادہ تر حکمرانوں کے دور میں جہاں اور مختلف
جرائم کی سزائیں مقرر تھیں وہاں سب سے سخت سزا کسی ٹیکس چور کی تھی مثلاً راجہ ہرش کے دور میں جو شخص تل برابر اور ٹیکس چوری کرتا تھا تو اسے ابلتے تیل کے کڑھاؤ میں ڈالا جاتا تھا اور اگر کوئی ٹیکس محکمہ کا اہکار کسی قسم کی کرپشن میں ملوث پایا جاتا تھا تو اسے سر عام بڑی بھیانک سزا دی جاتی تھی۔ سزا کا آغاز اس کے عضو تناسل کو کھینچ کر کیا جاتا تھا پھر زبان ، کان وغیرہ شکنجے سے کھینچ کر علیحدہ علیحدہ کیے جاتے تھے۔ اس دور میں ہر ٹیکس گزارا اپنے او پر لاگو فیکس سے بہت زیادہ جمع کرواتا تھا اور اسی طرح ٹیکس محکمہ کے اہلکار افسران بڑی ایمانداری اور آنکھیں کھول کر اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے تھے۔ ہر ایماندار ٹیکس گزار کو لا تعداد سہولیات سرکاری طور پر ملتی تھی ۔ ٹیکس گزار کو سرکاری طور پر معزز قرار دیا جاتا تھا