Urdu Novel story adaa jisam


منگل کا دن تھا۔ کوئی سرکاری چھٹی تھی۔ صفت صبح کے وقت باورچی خانے میں کھانا پکانے کی تیاریاں کر رہی تھی ۔ مرچیں نہیں لی تھیں ، ادرک اور لہسن کا بھی کچومر نکل آیا تھا۔ نوکرانی نے پیاز کاٹ لیے تھے۔ دروازے کی گھنٹی بجی ۔ عفت کی اماں نے نوکرانی کو آواز دی۔ آئی بی بی جی ۔ وہ برتن چھوڑ کر بھاگی ، ہو گا دھوبی یا اخبار والا ۔ عفت اپنے کام میں مصروف رہی۔ نوکرانی کچھ دیر تو نہ آئی۔ پھر برآمدے کی طرف پڑی چلمنوں میں اس کا سایہ نظر آیا۔ ”شہناز عفت کی آواز پرانے طرز کے برآمدے میں گونج گئی۔ شہناز چلمن ہٹا کر اندر داخل ہوئی۔ اس کے میلے منہ پر دبی دبی مسکراہٹ تھی ۔ کون آیا ہے؟ عفت نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ ایک بوڑھی عورت آئی ہے باجی !"۔


بوڑھی عورت کون؟" پتہ نہیں کون ہے۔ مگر آپ کا رشتہ لے کر آئی ہے ۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔ " کیا بکتی ہو“۔ عفت چولہا چھوڑ کر اس کے پاس آگئی۔ وہ کہتی ہے کہ آپ کو بہو بنانا ہے۔ اپنے پوتے کے لیے۔ عفت سے کوئی بات نہ بن سکی۔ وہ دوبارہ ہنڈیا دیکھنے لگی۔ اچھی اب تو اپنا کام کر۔ مگر شہناز جلد ہی غائب ہو گئی عفت کو اب ان باتوں میں بالکل دلچسپی نہیں رہی تھی ۔ پچھلے پانچ سال سے یہی ہو رہا تھا۔ وہ عورت چلی گئی۔ عفت نے اپنی اماں سے نہ پوچھا۔ وہ اس بات کو بھول بھلا گئی۔ سات آٹھ دن گزر گئے ایک شام وہ دونوں ماں بیٹیاں باہر باغ میں بیٹھی تھیں۔ اماں نے عفت سے بات کی۔


تمہارے بابا نے ایک لڑکا دیکھا ہے تمہارے لیے ۔ عفت سنجیدگی سے سنتی رہی ۔ " قریب ہی رہتے ہیں۔ ہم دونوں کل اسے دیکھنے گئے تھے۔ اچھا خاصا ہے۔ دیکھنے میں بھی اچھا ہے۔ دو مہینے بعد ایم بی بی ایس کا امتحان دے گا۔ تم بھی ڈاکٹر ہی چاہتی تھیں ناں“۔ جی!" دونوں ڈاکٹر ہو گئے تو ایک دوسرے کے مسائل اچھی طرح سمجھ پاؤ گے ۔ لڑکا اکلوتا ہے اس کے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ ایک ماں ہے اور دادی ۔ لڑکے کا کیا نام ہے۔ عفت نے پوچھا۔ مراؤ ۔ ” میری طرف سے تو جو آپ فیصلہ کر دیں بہتر ہے۔ مجھے قبول ہوگا۔


یہ لو اس کی تصویر دیکھ لو ۔ اماں نے کتاب سے تصویر نکال کر عفت کی طرف بڑھا دی۔ عفت نے تصویر دیکھ کر واپس کر دی۔ مراد کا چہرہ پُر وقار بھی تھا اور معصوم بھی۔ دو دن بعد وہ اپنی ماں اور دادی کے ساتھ عفت کے گھر چائے پر آیا۔ اس کی شخصیت پر کشش تھی مگر معصوم کی وہ بالکل بچوں کی طرح نظریں قالین پر گاڑے بیٹھا تھا۔ عفت نے ہی بات چیت شروع کی۔ کافی دیر تک وہ دونوں اپنی پڑھائی کے بارے میں ہی باتیں کرتے رہے۔ عفت نے اندازہ لگایا کہ وہ کافی شرمیلا اور دلچسپ انسان ہے۔ اگلے اتوار مراد کی ماں اور دادی عفت کو انگوشی پہنا گئیں۔ سردی شدت سے پڑ رہی تھی ۔ ٹھنڈی ہوا جسم میں سرائیت کر جاتی تھی ۔ عفت سویٹر پہن پہن کر اور کافی پی پی کر تنگ آگئی تھی ۔ ایک صبح اچھی دھوپ نکلی ۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا۔ کتابیں بیگ میں ڈالیں اور لارنس


گارڈن چلی گئی۔ عفت کا پسندیدہ بوڑھا درخت اسی شان سے دھوپ میں کھڑا تھا۔ عفت اس سے آگے دھوپ میں بیٹھ گئی اور کتاب کھول کر خاموشی سے پڑھنے لگی ۔ تھوڑی دیر بعد ایک آواز اس کے دھیان میں خلل ڈالنے لگی۔ "What are the symptoms of measles? fever, cough, cold watery discharge from cyes" آواز یہی سوال اور جواب بار بار دہرائے جاریہ تھی ۔ عفت اٹھ کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔ اسی درخت کے دوسری طرف مراد بیٹھ کر امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ عفت اسے خاموشی سے دیکھتی رہی۔ پانچ دفعہ وہی سوال اور جواب دہرا کر وہ دوسرا سوال پڑھنے لگا۔


 اب وہ چکر لگا رہا تھا اور ساتھ ساتھ سوال دہرا رہا تھا۔ پانچ چھ دفعہ یہ سوال دہرا کر اس نے پھر سے پہلا سوال پڑھا۔ مگر اسے جواب نہ آیا۔ ” کیوں یاد نہیں ہوتا “ ۔ اس نے کتاب اپنے سر پر ماری اور پھر دور گھاس پر پھینک دی اور گھاس پر لیٹ کر کوئی دھن گنگنانے لگا۔ وہ آنکھیں بند کیے گنگنانے میں مگن تھا۔ اب تک عفت اس کا سر ہی دیکھ سکتی تھی۔ لیٹ کر تو وہ بالکل آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔ عفت نے اپنا دوپٹہ مسیح کیا اور کتا بیں اٹھا کر اس طرف آگئی۔ ارے آپ یہاں ! عفت نے بنتے ہوئے کہا۔ مراد ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا اور ایک دم عفت کو دیکھ کر گھبرا سا گیا۔

جی ہاں ! پیپرز قریب ہیں۔ تیاری کر رہا تھا۔ " کتنے دن باقی ہیں؟“ چھپیں"۔ مراد کی نظر دور پڑی اپنی کتاب کی طرف اٹھی۔ عفت مسکرائی اور مراد کی کتاب اٹھا کر لے


آئی۔ "آپ بھی یہاں پڑھ رہی ہیں“۔ مراد نے پوچھا۔ جی ہاں ! بڑے دنوں کے بعد دھوپ نکلی ہے۔ موسم اچھا تھا۔ سوچا یہیں آ کر پڑھوں ۔ مگر آپ جو ابھی کتاب سے کشتی کر رہے تھے ، دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ہر دو تین دن بعد عفت اور مراد لارنس گارڈن میں ملتے ۔ دونوں ظاہر کرتے کہ اتفاقاً گزر ہو رہا تھا“۔ مگر دونوں جانتے تھے کہ وہ ایک دوسرے سے ملنے آتے ہیں۔ مراد نے عفت کو بتایا کہ اب اس کی تیاری مکمل ہے۔ اب وہ بیٹھنے کے بجائے روش پر ٹہلتے ٹہلتے باتیں کرتے رہتے تھے۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کب وہ سارے باغ کا چکر لگا کرو ہیں آجاتے جہاں سے چلنا شروع کیا تھا۔ بہار قریب تھی۔ پھول نکلنے شروع ہو گئے تھے۔


مراد بہت آہستہ چلتا تھا۔ کبھی کبھی عفت اس کی رفتار سے تنگ آکر تیز چلنے لگتی تو وہ فورا کہہ دیتا۔ ذرا آہستہ چلو عفت“ ۔ آپ تو بہت آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔ لطف اندوز نہیں ہو رہا۔ ”جب ہماری شادی ہو جائے گی تو روزانہ یہاں آیا کریں گئے ۔ عفت نے کہا۔ ہاں ضرور کل دادی کہہ رہی تھیں کہ شادی کی گیا۔ و بس ایسے ہی۔ اس روش پر آہستہ آہستہ چلنا بہت اچھا لگتا ہے۔ اگر میں یہاں تیز چلوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں اس سبزے اور ان پھولوں سے پوری طرح سے تاریخ جلدی ہی طے کر دیں گئے۔ کب تک؟ عفت کا چہرہ شرم سے سرخ ہو کہتی تھیں اس سال نومبر کا مہینہ ٹھیک رہے


تب تک آپ ہاؤس جاب بھی کر لیں۔ ہاں۔ تم نے ایم بی بی ایس کے بعد کیا کرنا ہے۔ ارادہ تو گائنی کا ہے۔ اب آگے جو اللہ کو منظور وہ کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ مراد بڑے اونچے موڈ میں تھا۔ پُر فضا باغ پھر عفت اس کی ہونے والی بیوی جس سے وہ محبت کرنے لگا تھا۔ اسے ارد گرد کی کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ بس عفت تھی اور وہ تھا۔ اس نے عفت کا ہاتھ تھام لیا۔ عفت نے محسوس کیا کہ اس کے سخت اور سفید ہاتھ پینے سے بھرے ہوئے ہیں اور کان بھی سرخ ہورہے ہیں ۔ کیا اسی کیفیت کا نام عشق تھا ؟ چلو دیکھیں پہلے اس درخت کو کون چھوتا ہے۔ عفت نے جلدی سے کہا اور روش سے اتر کر باغ میں بھاگ گئی۔ مراد نے اس کا پیچھا کیا۔ وہ بھی بھاگ کر باغ میں داخل ہوا۔ اس کیفیت میں وہ اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ اسے کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔ عفت درخت تک پہنچی اور مڑ کر دیکھا۔ مراد اس کی طرف بھاگتا ہوا آرہا تھا۔


۔ اس کی ٹانگوں کا توازن مراد یہ آپ کیسے چل رہے ہیں ؟ عفت کی آواز میں خوف تھا۔ مراد پر جیسے بجلی گر گئی۔ وہ وہیں جم کر رہ گیا۔ عفت اس تک پہنچی ۔ ” کچھ بولیس بھی کیا ہوا آپ کو۔ مراد بالکل خاموش کھڑا رہا۔ کیا بات ہے مراد۔ مجھے بتائیں آپ کیسے چل RA رہے ہیں ؟ عفت کی آواز کا خوف بڑھ گیا تھا۔ مراد نے گہری نظر سے اس کی پریشان صورت کی طرف دیکھا اور بولا ۔ عفت ! تمہیں دکھ ہوگا۔ میری دونوں ٹانگوں میں


فرق ہے"۔ عفت پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ اسے احساس نہ ہوا کہ وہ کتنی دیر کھڑی خالی خالی نظروں سے مراد کی طرف دیکھتی رہی اور کب وہاں سے چل دی۔ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر اسے احساس ہوا کہ گھر سامنے ہے اور اسے آنسو چھپانے ہیں۔ شام کو وہ سو کر اٹھی۔ چائے نے اس کی دماغ کی سوئی ہوئی رگوں میں توانائی پہنچا دی۔ خیالات کی یلغار پھر شروع ہو گئی۔ مراد نے اسے کتنا خوبصورت دھو کہ دیا تھا۔ اس نے سوچا ۔ کتنے حسین خواب میں تھی وہ ۔ مگر جاگی تو دنیا اپنا بھی ایک رخ لیے اس کے سامنے کھڑی تھی ۔ رات بھر وہ سوچتی رہی کہ اب کیا ہوگا۔ وہ کچھ فیصلہ نہ کرسکی ۔ اماں کو بتادے یا تقدیر کے فیصلے کا انتظار کرے۔


 صبح کے وقت وہ برآمدے میں بیٹھی تھی ۔ شہناز نے میز پر ایک لفافہ لا کر رکھ دیا۔ بی بی جی۔ لیٹر بکس میں پڑا تھا۔ عفت نے بے خیالی سے دیکھا۔ پھر لفافے پر اپنا نام دیکھ کر چونک گئی۔ اس کے نام کس کا خط آسکتا تھا۔ اس نے سوچا۔ پھر لفافہ کھولا اور خط نکالا۔ مراد کی لکھائی وہ پہچان گئی۔ عفت ! اس وقت تمہارے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ یہ میں اچھی طرح سے سمجھ سکتا ہوں۔ کل تمہاری محبت ہی نے مجھے تم سے دور کر دیا۔ تمہارے ساتھ کی کیفیت میرے دل و دماغ پر حاوی تھی۔ مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ اپنے جسم کا عیب مجھے چھپانا ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ اس طرح گزارا ہو جائے گا۔ مگر میں غلط تھا۔ اب تمہیں جواب بھی مل گیا ہو گا کہ میں آہستہ کیوں چلتا ہوں۔ مگر شاید تمہیں اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ دوڑ لگانے کا بہت شوق ہے۔ میں تو دھو کے باز ہوسکتا ہوں مگر تم نے امی اور دادی کے بارے میں بھی یہی سوچا


ہوگا۔ اگر تصور کرو کہ ماں کا دل اور اس کی مجبوریاں کیا ہوتی ہیں تو شاید تم انہیں معاف کر سکو۔ میرے ساتھ ایسا دوسری بار ہوا ہے۔ پر اب میں کسی کو دھو کہ نہیں دوں گا۔ ضمیر کا یہ کٹھن بوجھ میں نہیں اٹھا سکتا۔ بار بار ٹھکرائے جانے کی بینک میرے لیے نا قابل برداشت ہے۔ میری وجہ سے جو تمہیں دکھ پہنچے ان کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔ میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں مگر میں یاد رکھنے کی چیز نہیں۔ تم مجھے بھول جاؤ اور اپنی زندگی جی لو۔ مجھے خوشی ہوگی کہ تم سکھی ہو۔ مراؤ مراد کی سوچ خیالات کے انبار تلے دب گئی تھی۔


وہ پریشانی میں کم ہو گیا تھا۔ اب اگلے دن امتحان تھا مگر اس کی سوچ ایک نقطے پر ٹھہرتی نہیں تھی۔ اپنی پانچ سال کی محنت اسے اپنے سامنے ضائع ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ لیمپ کی زرد روشنی اسے چیرتی ہوئی مراد کی کتاب پر بکھر رہی تھی۔ عفت خاموشی سے اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ پیچھے کے بارے میں پوچھنے آئی تھی۔ تیاری کیسی ہے ۔ م اچھی ہے۔ تم کیسی ہو“۔ اچھی ہوں۔ اتنے دنوں سے ہم ملے نہیں۔ آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ میں ناراض ہوں“۔ و نہیں ۔ اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

پڑتا ہے۔ عفت نے مراد نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ”میں اب کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ میری محبت کے سامنے آدھے انچ جسم کی کوئی حیثیت نہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post