قید سے بڑی ننگی چیز کوئی نہیں۔ قید میں صرف قیدی ہی نگا نہیں کیا جاتا ، قید کرنے والے بھی نگے ہو جاتے ہیں۔ دنیا بھر کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لو۔ قدیم زمانے کی قید گاہوں سے لے کر آج کی ابوغریب جیل تک ۔ سب جیلیں ابو غریب ہی ہوتی آئی ہیں۔ جہاں غریب، ابن غریب قیدی بنا کے رکھے جاتے ہیں۔ قید ہونے والے ہر دور میں غریب تھے یا غریب = الوطن، اور قید کرنے والے اپنے اعمال کی سیاہی سے بھرے، ان سب غریبوں کے بھی باپ ابو غریب۔ قید خانے سے وابستہ لوگوں کو اپنی عظمت پہ کتنا ہی گھمنڈ کیوں نہ ہو، دوسروں کو قید کرتے ہی ان لوگوں سے یہ تہذیب و تمدن، علم و دانش اور شائستگی کے سارے کپڑے اک اک کر کے اتر جاتے ہیں اور ان کے اندر = سے صدیوں پرانے جنگل کے وحشی جنگلی انسان نکل لیے آتے ہیں۔ صرف اتنا فرق ہوتا ہے قیدی اور قید کرنے والے میں، کہ قیدی جبر سے تہذیب و تمدن کی گلی سے نکالا جاتا ہے اور قید کرنے والا اپنی طاقت کے گھمنڈ اور تکبر کی ہما ہمی میں رسمساتا ہوا احساس تفاخر سے بھرا بہ رضا ورغبت یکبارگی اپنے تمدن کا جھوٹا خول توڑ کے اپنا ا اصلی روپ لیے نکل آتا ہے۔ نگا ہو جاتا ہے۔
نگا ہونا انسان کی ہر خواہش کا نقطہ آغاز ہے۔ کبھی سوچا ہے، کیوں ! سوچو تو سہی۔ سوچو، یہ سوچ بھی کتنی تنگی ہے۔ تمہیں ننگا ہونا اتنا برا کیوں لگتا ہے؟ مانتا ہوں، ننگے پن میں بڑا میلا پن ہے۔ ہے۔ اندر کی ڈراؤنی شکل نظر آتی ہے۔ میل کچیل بڑھتا ہے۔ تن کی کثافت میں اضافہ ہوتا ہے۔ دلدل ہے یہ۔ نکلو تو قدم نہیں نکلتے ۔ چلو پھرو تو کیچڑ محسوس کرنے لگو تو غلاظت ہی غلاظت ۔ سب باتیں صحیح ہیں۔ مگر میری جان، ننگے ہوئے بغیر کسی بھی میل نجاست سے نجات نہیں ملتی۔ ہر میلے پن کو اتروانے کا
غسل ہوتا ہے۔ اگر کسی کو واقعتاً اپنے تن اور من کے کیچڑ کو صاف کرنا ہو تو اسے بھی استعاروں کے ملبوسات سے نکل کے سچائی کے حوض میں اترنا پڑتا ہے۔ بڑا مانجھے مانجھ کے میل پچیل اتارنا پڑتا ہے، پھر کہیں جا کے میل اترتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ کام ایک فرد کو نہیں ، پوری قوم کو کرنا پڑتا ہے۔ وہ ایک ہستی ہو یا پوری قوم جو قید رہی ہو، یا قید کرتی رہی ہو ، اس پہ یہ نسل واجب ہوتا ہے۔ ہو، پر یہ جانتی ہو، یہ نسل کیسے کرتے ہیں۔ اکیلے فرد کے لیے ہو تو دو بول تو بہ اور چلو بھر شر مسار کرتا پانی عموماً کافی ہے۔ پوری قوم کا معاملہ ہو تو پانی سے یہ غسل نہیں ہوتا ، خون سے ہوتا ہے۔ میلی قو میں خون سے نہائے بغیر پاک نہیں ہوتیں۔ خاص طور پر جو روندی ہوئی ہوں۔
غیروں کے بستر پر سوئی ہوئی ہوں۔ قوموں کی تاریخ میں غسل کے اوقات بھی افراد جیسے ہوتے ہیں ۔ نئی قوم جنم لیتی ہے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ قوم میں جوانی کی لہریں سر اٹھاتی ہیں تو یہ غسل بار بار ہوتا ہے اور کوئی بدنصیب قوم اپنی بربادی کی حشر سامانیاں لیے دفن ہونے آئے تو اسے بھی پہلے یہی غسل دیا جاتا ہے۔ تمہیں اس غسل سے کیا لینا دینا۔ تم کوئی قوم تھوڑی ہو ۔ تم تو ہر قوم کا امتحان ہو۔
جانتی ہو قوموں کے امتحان بھی افراد جیسے ہوتے ہیں۔ میں اپنی قوم کی طرح تجھ جیسے ہر حسین امتحان میں جان بوجھ کے فیل ہوتا ہوں ۔ تم ان باتوں کو نہ چھیڑو ۔ تم اجلے من کی مہکتی روح ہو۔ تمہیں اندر کے میل کچیل کا ادراک نہیں ہے۔ اسی لیے کہتا ہوں میلے من کومل مل کے دھونا تیرا مسئلہ نہیں ہے تمہیں ایسے غسل کا پوچھ کے کیا لینا ہے؟ تم نے نہ کوئی غسل کرنا ہے، نہ کرنے
دینا ہے۔ کوئی اپنی پاوتر تا کے لیے کہیں ڈبکیاں کھاتا پھرے تو تم روک تھوڑی سکتی ہو۔ اب روکنے کے بہانے نہ سوچو۔ نہ، یہ سنو جو کہ رہا ہوں ۔ میں تو تمہیں یہ کہنے لگا تھا کہ صدر، جاپانیوں کی قید میں گیا تو اس نے سوچ لیا ، قید سے نکلنا ہے ہر حال میں ۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا تھا۔ وہ مر سکتا تھا۔ مرا ہوا شخص بھی تو قید سے رہا ہو جاتا ہے۔ بس وہ مرنے پہ تیار ہو گیا تھا۔ اس لیے ایک ہی رات میں اس نے ساری منصوبہ بندی کر لی۔ قیدی کیمپ میں چکر لگا کے دیکھ لیا رات کو، کدھر کدھر روشنی کم ہے۔ کہاں اندھیرا ہے۔ کہاں تیز روشنی ہے۔
سیکورٹی اہلکار کہاں کہاں پہرے پہ کھڑے ہیں۔ ان کے پہرے میں گشت کے کتنے قدم ہیں۔ کس رخ اور کس سمت میں ہیں۔ کتنے گھنٹوں بعد پہرے داروں میں ڈیوٹی تبدیل ہوتی ہے۔ قیدی کیمپ کے باہر کہاں کہاں سے خار دار تار کے گچھے کم ہیں ، کہاں زیادہ اور کیمپ کے باہر کدھر کتنی دور تک کھلی زمین ہے، کہاں سے آگے گھنا جنگل شروع ہوتا ہے۔ صدر کا دماغ کمپیوٹر بناکیمپ میں اسے لیے پھر رہا تھا۔ آخر ایک کم تر روشنی والے علاقے میں وہ لیٹ گیا۔ وہاں قیدیوں کے لیے کوٹھے تھوڑی بنے تھے ۔ جنگل میں جنگی قیدی کیمپ تھا۔
اندر سے سارا کھلا۔صرف اجابت خانے کی جگہوں پہ قیدیوں سے کچھ گہرے کھڑے کھدوا کے اوپر درختوں کے کئے پھٹوں میں سوراخ کر کے رکھے ہوئے تھے اور پھر سوراخ والی جگہ کا دوسری جگہوں سے ڈھائی تین فٹ اونچائی تک پردہ کیا ہوا تھا۔ تختوں سے ۔ باقی خاردار تاروں بیچ سارا میدان قیدی کیمپ تھا۔ خار دار تاروں کے باہر بندوقوں سے لیس پہرے دار۔ کہیں کسی قیدی
کی کسی حرکت پہ شبہہ ہوتا تو میں کرتی گولی آتی ۔ قیدی لہولہان ہو کے تڑپتا گر جاتا۔ باقی قیدیوں سے اس کی لاش کھنچوا کے، بیت الخلا کے کھڈوں کے پاس ایک کھڑا اور کھدوا کے دبادی جاتی اور گولی چلانے والا پہرے دار پھر اپنی جگہ پہ جا کے چوکنا کھڑا ہو جاتا۔ صدر نے لیٹے لیٹے آدھی رات گزاردی۔ جھوٹ موٹ آنکھیں بند کئے ، پیچی آنکھوں سے خار دار تاروں کے باہر گشت کرتے سپاہیوں کو چلتے پھرتے دیکھتا رہا۔ سوچتا رہا۔ اندر سارے میدان میں پھٹی ہوئی بوسیدہ بوریوں کی طرح قیدی لیے سوئے ہوئے تھے۔ دن بھر کے تھکے ہارے۔ بھوکے پیاسے۔ سبھی کے جسموں پر صرف ایک خا کی نیکر تھی
ننگے جسموں پر کوڑوں کے نشان تھے۔ صدر نے خود بھی دن بھر جنگل میں درخت کاٹتے ہوئے کوڑے کھائے تھے۔ اس کی کمر میں زخم ٹیسیں دے رہے تھے۔ مگر اس کی آنکھیں جاگ رہی تھیں۔ آخر فرار کا لمحہ آ گیا۔ وہ گولی کھا کے، کھڑے میں دبائے جانے پہ راضی ہو گیا۔ خار دار تاروں کے باہر سنتری دوسرے رخ پہ چلتا ہو ا دور ہوا تو ، اندھیرے کا فائدہ اٹھا کے صدر بجلی کی سی تیزی سے خار دار تاروں کے گچھے میں لپکا۔ خار دار تاریں صدر کے اندازے سے زیادہ تھیں ۔ وہ ان کے اندر سے گزرنے لگا تو سر سے پاؤں تک اس کا جسم کئی جگہوں سے ایسے پھل گیا جیسے ایک مچھلی کو ایک ساتھ پندرہ میں کنڈیاں اپنی مڑی سوئیوں میں پرولیں ۔ وہ سمجھ گیا،
۔ وہ سمجھ گیا، اب اگلے ایک دولمحوں تک اگر وہ انہی تاروں میں پھنسار ہا تو پھیلتی ہوئی سرچ لائٹ اس کی طرف سرک آئے گی ۔ سنتری کا ادھر سے گزر ہوگا اور ایک تراخ کی گولی سے اس کا سارا بدن اچھل کے
انہی خاردار تاروں میں دفن ہو جائے گا۔ شاید اس کی لاش بھی ان تاروں سے نہ نکلے اور جاپانی اس کی لاش کو نشان عبرت کے طور پر بغیر دفنائے ، بنا کھڑا بنوائے یونہی وہاں خون سے لت پت مرا ہوا چھوڑ جائیں ۔ مگر اس لمحہ اپنے بدن کے درد سے بے نیاز تھا۔ اس کے جسم میں خار دار تاریں بنے جاتے ہوئے سویٹر میں سلائیوں کی طرح نہیں ، کسی عفریت کے نوک دار دانتوں کی طرح جگہ جگہ سے چھی ہوئی تھیں ۔ مگر اس لمحے اس کے بدن کا سارا لہو ذہن میں فرار کی جست لینے پہ تلا ہوا تھا۔ کسی بھی زخم کسی بھی رگڑ اور کتنے ہی خون قطروں کی قیمت پہ ۔ اسے اپنے ہی بدن کے زور سے اپنے بدن کی فصیلوں کو توڑ کے نکلنا تھا۔
یہ حکم اس کا پورے جسم پر حکومت کرنے والا دماغ دے چکا تھا۔ مگر مصیبت یہ ہوئی کہ اس کی پہنی ہوئی نیکر تاروں کے گچھے میں الجھ گئی ۔ نیکر تو کسی دماغ کی تابع نہیں ہوتی۔ جب تک ایک ایک خار دار تار کا نوکیلا مڑا ہوا لو ہے کا کانٹا پکڑ کے نہ نکالا جائے ، نیکر کیسے نکلے؟ خار دار تار کوئی ایک کا نشاتھوڑی تھا، جو نیکر میں پھنسا، پر دیا گیا تھا۔
تھا۔ اس کے پاس گنتی کے چند لمحے تھے۔ اس نے کوشش کی ، جھٹکے مارے کہ چلو نیکر پھٹ جائے ، بدن چھل جائے ، کسی طرح نکلے مگر بے سود، تاروں میں پھنسی نیکر نہ نکلی ۔ آخر اس نے نیکر کو تاروں میں پھنسا رہنے دیا، نیکر کے کمر سے بٹن کھول کے اپنا بدن اس سے نکال لیا اور ننگا ہو کے خاردار تاروں کے نوکیلے دانتوں کے اندر سے بے زبان ، جانور کی طرح سمٹ سمٹا کے نکل گیا۔ تاریک کھلے جنگل میں ایک گیا۔ پہلے کچھ دیر وہ تاروں سے نکل کے کینچوا بنا زمین سے لگا، بے حس و حرکت پڑا لیٹا رہا۔ سیکورٹی لائٹ کا دائرہ سرکتا سرکتا اس کے پاس ے اندھیرے کی سرحد کو چھو کے گزر گیا۔ سنتری قریب آکے پھر دور ہو گیا۔ صدر پھر دھیرے دھیرے رینگتا ہوا
اندھیرے میں جنگل کی طرف بڑھتا گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ سنتریوں کی نظر سے دور ہو گیا ہے تو چو پاؤں کی طرح اٹھ کے کبڑا ہوا تیز تیز قدموں سے گھنے جنگل میں گھس گیا۔ جنگل میں جاتے ہی وہ اندھا دھند بھاگنے لگا۔ جنگل میں کانٹوں بھری جھاڑیاں تھیں ۔ زمین یہ نوکیلے پتھر ، کھایاں ، گری ہوئی نوکیلی درختوں کی شاخیں تھیں ۔ گھنی شاخوں میں کانٹے تھے مگر صدران سب سے بے نیاز تھا۔ اس کے پورے بدن میں سر سے پیروں تک احساسات اٹھا کے چلنے والی تاریں اپنا کام چھوڑے بیٹھی تھیں ۔ پورے بدن پہ اسے بھگائے لئے جانے کی ایک اکیلی خواہش حکومت کر رہی تھی ۔ وہ اپنی بقا کی دوڑ لگا ر ہا تھا۔ موت سے وہ کتنی تیز دوڑ سکتا ہے، آج رات اسے یہ ثابت کرنا تھا۔
وہ بھاگتا رہا۔ وہ اس کی سروائیول کی دوڑ تھی ۔ زندگی ایک انسان کو کتنا دوڑ سکتی ہے، یہ بیٹھے بیٹھے طے نہیں ہو سکتا۔ اس کا اندازہ کرنے کے لیے اس کیفیت سے گزرنا ضروری ہے، جس سے صدر گزرا تھا۔ ایسی صورت میں انسان کو دشمن کی گولی سے تیز تر بھاگنا پڑتا ہے۔ منٹوں میں صدر بہت دور نکل گیا۔ وہ بھاگتا رہا۔ اسے پتہ تھا۔ ابھی صبح ہونے میں کچھ دیر ہے۔ جنگل گھنا ہے۔ دونوں طرف پہاڑ ہیں ۔ پہاڑ کی چوٹیوں کی آبزرویشن پوسٹیں ہوں گی۔ پہاڑ کے نیچے وادی میں تو ان کی آمد و رفت تھی ۔ صرف پہاڑیوں کی ڈھلوانوں کے بیچ ایسی آڑ میں رہ کے اسے بھاگنا تھا، جو نہ اوپر سے نظر آئے ، نہ نیچے سے ۔ سب سے قیمتی وقت یہی شروع کا تھا۔ جتنی جلدی ہو سکے وہ اپنے قیدی
کیمپ سے کم از کم پندرہ بیس میل کی دوری پہ پہنچ جانا چاہتا تھا۔ ایسی جگہ یہ جہاں گاڑی پہ بیٹھ کے کوئی اس کا پیچھا نہ کر سکے۔ ڈھائی تین گھنٹے صدر متواتر بھاگتا رہا۔ اس کے دماغ میں یہ خوف بھی تھا کہ اس کی چوری چھپی نہیں رہنی۔ پکڑی جانی ہے۔ نیکر تاروں میں الجھی رہ گئی تھی۔ وہ نظر آجاتی ہے مگر صدر خود بھی کئی بار سنتری کی ڈیوٹی دے چکا تھا۔ سپاہیوں کی عالمگیر ذہنیت سے آگاہ تھا۔ اس خیال آیا کہ اس جگہ کا سنتری ہی سب سے پہلے اس کی نیکر تاروں میں الجھی دیکھے گا۔ امکان ہے کہ وہ اپنی ہتک اور ممکنا سزا سے بچنے کے لیے خود ہی اس کی نیکر تاروں سے نکال کے کہیں چھپا دے گا۔ یا جلا دے گا۔ نیکر پہ کون سا پتہ لکھا ہوا تھا۔ جنگلی عارضی کیمپ تھا۔ قیدیوں کا تفصیلی اندراج تک نہیں تھا۔
حاضری کی جگہ ۔ عموماً وہاں صرف گنتی ہوتی تھی ۔ وہ بھی صبح اور شام ۔ وہ . سوچ رہا تھا کہ اس کے فرار کا علم ہوتے ہوتے کم از کم صبح ہو جاتی ہے اور صبح تک اسے بہت دور جا کے چھپنا ہے۔ بھاگتے بھاگتے اسے صبح ہوگئی۔ رات کے جسم سے اندھیرے کا لحاف دھیرے دھیرے اترنے لگا۔ جنگل کے پیڑ پودے اپنا چہرہ کھانے لگے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ میں اسے آزادی کا نغمہ سنائی دینے لگا۔ اسے سانس چڑھا ہوا تھا۔ حلق میں پیاس کے کاٹنے اُگ رہے تھے اور اسے قریب ہی کسی چشمے سے پانی بہنے کی آواز آرہی تھی ۔ اس کے پاؤں کانٹوں سے لہولہان تھے ۔ سر سے پیر تک جسم خراشوں اور زخموں سے بھرا پڑا تھا اور نیل گوں سرمئی انڈے جیسے دسکتے آسمان میں روشنی تیزی سے بڑھ جارہی تھی اور وہ پورے کا پورا ننگا ہو رہا تھا۔
اندھیرا بذاتِ خود ایک لباس ہے جو روشنی کی ایک کرن سے اترنے لگتا ہے۔ اندھیری رات کا اندھیرا
لباس، روشنی نے اس کے جسم سے چھین لیا تھا اور وہ ایسے اجنبی پن سے اپنے جسم کو دیکھ رہا تھا، جیسے ساری رات وہ کسی بد قماش نانگے کا جسم دوڑاتا لیے پھرتا رہا ہو۔ وہ عجیب جگہ پہنچ گیا تھا اور حیران تھا کہ وہ یہاں پہنچا کیسے۔ پہاڑ کی وہ ڈھلوان عجیب تھی۔ جہاں ایک چٹان قدرتی طور پر چھجے کی صورت میں آگے کو بڑھی ہوئی تھی اور اس کے نیچے برآمدے کی طرح چھپنے کی جگہ تھی۔ اس کا پورا وجود دھنگی کی طرح لرزتا ہوا، ہوا کی ایک ایک بوند کو اپنے پھیلے نتھنوں اور کھلے منہ سے پھیپھڑوں میں ٹھونس ٹھونس کے بھر رہا تھا۔ پوری زندگی میں اسے اتنا سانس نہ چڑھا تھا۔
نہ کبھی پہلے وہ اتنا تیز دوڑا تھا۔ نہ ہی اتنا زیادہ ۔ نہ ہی ایسے حالات کا کبھی اس نے تصور کیا تھا۔ انجانی راہیں، پتھریلے پہاڑی راستے اور ہر لمحے پیچھے کنپٹی پر گولی کا انتظار ۔ اس جگہ پہنچ کے اس سے کھڑا نہ ہوا گیا۔ وہ اس غار میں لیٹ گیا۔ غم مٹی پہ جنگلی اونچی گھاس میں وہ کسی جنگلی جانور کی طرح لیٹا ایسے زور زور سے سانس لے رہا تھا جیسے اس کے پورے بدن سے صرف سینے کے پھیپھڑوں میں ابھر نے بھرنے اور ہلنے کی سکت ہو اور کسی کو نہ ہو ۔ چشمے سے پانی کے بہنے کی آواز اسے آئے جارہی تھی۔ اس نے لیٹے لیٹے اپنا سانس درست کیا۔ پھر اس کی آنکھوں میں جان آئی تو چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔
وہ قیدی کیمپ کو بیس پچیس میل دور چھوڑ آیا تھا۔ پہاڑ کی چوٹی بھی اس سے دور تھی۔ قریب قریب کہیں کسی انسانی بستی کا نشان نہ تھا۔ وہ محفوظ تھا۔ اس کا سانس درست ہونے لگا... اور وہ گرتے ہوئے پانی کی آواز کو ڈھونڈتا ہوا چشمے پہ جا پہنچا۔ اس چھجے کے دوسری طرف اوپر سے آتی ہوئی
ایک بار یک کسی پہاڑی ندی اچھل کے نیچے گر رہی تھی ۔ گرتے ہوئے پانی میں سفید شفاف جھاگ بنی ہوئی تھی اور ایک جگہ پر گرتے ہوئے پانی نے کھلی جگہ پھیل کے ایک چھوٹا سا حوض بنا رکھا تھا۔ صدر پانی کے حوض کے کنارے جا کے لیٹ گیا اور پانی کی ٹھنڈی اچھلتی جھاگ بھری سطح پہ اپنا چہرہ رکھ دیا۔ اسے آزادی کی سمجھ آگئی ۔ تمہیں سمجھ آئی تمہیں کب سے کہتا آرہا ہوں۔ آؤ ۔ کبھی تو پیاس لے کر آؤ۔ پیاسی بن کے آؤ۔ اور میرے ٹھہرے ہوئے بے قرار جود پر اپنا چہرہ رکھ کے لیٹ جاؤ ۔ مگر تم عجیب ہو۔ نہ ندی بنتی ہو، نہ پیاسی ۔ دیکھو۔ ان دونوں میں سے ایک بننا ضروری ہے۔ اگر ندی ہو تو پیاسے کا انتظار کرو
اور جب وہ آجائے تو اس کی پیاس بجھاؤ اور بہتی رہو، لیٹی رہو۔ اگر پیاسی ہو ۔ تو ندی پہ پہنچ کے نہ شرماؤ ۔ اس کی سطح پہ ہونٹ رکھ کے اپنی پیاس اسے دے دو ۔ اور اس کے اندر بہتی ہوئی زندگی ، اپنی نسوں میں بھر لو، اور جیو۔ تمہیں نہ جینا آتا ہے۔ نہ دوسرے کو جینے دیتی ہو۔ نہ ندی بنتی ہو نہ پیاسی ۔ صدر تو پیاسا تھا۔ جی بھر کے اس نے پانی پیا اور پھر وہیں ندی کنارے لیٹ گیا۔ صبح کی روشنی بڑھتی رہی ۔ روشنی کا کام صرف سچ بولنا ہے۔ پردے ڈالنا نہیں۔ سب سے پہلا پردہ روشنی اندھیرے کا اٹھاتی ہے۔ اندھیرے میں جو چھپا ہوا سے ننگا کر دیتی ہے۔
صبح کی روشنی سے بڑا سچا کون ہے۔ اس روشنی نے اسے احساس دلا دیا کہ وہ تو مادر زادالف ننگا ہے۔ مگر وہاں کس سے پردہ تھا۔ وہاں تو کھلا آسمان، مسکراتا پہاڑ اور ہنستی ہوئی بہتی ندی کا پانی تھا۔ پھر کتے چہچہاتے پرندے تھے اور
جنگل میں دوڑتے پھرتے اچھلتے چھوٹے بڑے جانور تھے۔ صدر کو اچانک احساس ہوا کہ وہاں قدرت اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ ہو ید اتھی اور ساری کی ساری نگی تھی۔ تم پھر شرمانے لگی ہو۔ تمہاری بات تھوڑی کر رہا ہوں ۔ مانتا ہوں، تم میں قدرت کا زمینی اور آسمانی سارا حسن ہے، پہاڑ ہیں اور وادیاں ہیں، جھرنے ہیں۔ چشمے ہیں، نگینے جڑے ہیں، موتی لگے ہیں۔ سونے کی گندھی سنہری ہو تم اور تم پہ چاندی سے بھری نیل گوں جھیلیں ہیں۔ مگر تمہارا معاملہ اور ہے۔ اسی لیے شاید تم پر پردہ واجب ہے۔ اس لیے کہ تم نے سر عام پردہ اٹھا دیا تو اس قدرت کے پر امن کارخانے میں فساد کا ڈر ہے۔ اس لیے کہ ہمارے چاروں طرف فسادی ہیں ۔
یہ شہر، یہ بستیاں، گاؤں : یہ فساد گا ہیں ہیں۔ اگر ان سے نکل کے میلوں دور ، صدر کی طرح کسی پہاڑ کی ڈھلوان پہ ندی کنارے پھدکتے پرندوں میں جا کے گھونسلا بناتا ہے تو پھر تم سے بھی یہ شرط اٹھا جائے گی۔ قدرت کی بنائی کھلی وسیع رعنائیوں بھری وادیوں میں، پہاڑیوں پر کسی حال میں بھی رہتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ اس لیے کہ وہاں رہنے والوں کو اپنی شرم گاہوں کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ شرم اس جگہ آتی ہے جہاں اس شجر کی موجودگی کا احساس ہو۔ شاید یہی ممنوعہ تجر تھا ، جس کے احساس کرنے اور کروانے سے منع کیا گیا تھا۔ مگر جب ہمارے بڑے منع نہ ہوئے تو ہم کس باغ کی مولی ہیں۔ تم عورت کو خدا نے بنا کے، مجھ جیسے سارے مردوں کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے۔ سمجھ نہیں آتی پیچھے بھاگوں یا آگے تم عورت ذات ہم مردوں کے لیے جاپانی قید خانے کے گردا گرد کی وہ خار دار تار کا گچھا ہوا،
جس کے اندر ہم میں سے ہر مرد کی نیکر پھنسی بڑی ہے مگر جس جنگل پہاڑ میں ہم صدر کی طرح بھاگے دوڑے پھر رہے ہیں اس کے سرے پہ تم پھر چشمہ بن ک لیٹی ہوئی نظر آتی ہو اور ہماری پیاس دیکھ کے کہتی ہو، آؤ پی لو دو گھونٹ ۔ جو دو گھونٹ پی لیتا ہے اس پہ پھر صبح طلوع ہو جاتی ہے اور وہ اپنا نگا پن دیکھ کے خفیف ہوا سوچنے لگتا ہے۔ اب نیکر کہاں سے لاؤں ۔ بولونا ۔ تم کیا گورکھ دھندا ہو۔ میں مانتا ہوں، مجھے تمہاری سمجھ نہیں آئی ۔ تمہیں آئی ہے تو بتا دو۔ نہیں آئی تو آؤ مل کے سوچتے ہیں۔ ٹھیک صرف ایک شرط ہے۔ تمہیں یہ سوچنا ہے کہ اس وقت میں صدر ہوں ۔ سوچو۔
اگر صدر کے ساتھ بیٹھ کے اس وقت کوئی - سوچنے والی ہوتی تو اس کا کیا حشر ہوتا۔ شکر ہے، وہ دنیا کے کے تمام تر انسانوں سے دور ایسے جہان میں تھا ، جہاں کوئی ٹائم مشین اسے آنا فانا دس لاکھ سال پہلے کے زمانے میں لے گئی تھی ۔ کھانے کے لیے اس کے پاس جنگل کی اونچی گھاس تھی۔ پینے کے لیے چشمے کا پانی۔ درختوں کے اکا دکا پھلوں پہ بھی وہ گزارہ کر لیتا تھا۔ چٹان کے نیچے نرم گیلی مٹی کو کسی نو کیدار پتھر سے کھود کھود کے اس نے اپنے لیے مٹی کا بچھونا بچھا لیا تھا۔ رات کو وہ اسی کھڑ میں آکے سو جاتا۔ دن کو پتھروں کی آڑ میں ، درختوں کے جھنڈ میں چھپا پھرتا خاردار جھاڑیوں سے پھل تو ڑتوڑ کے کھاتا رہتا۔ اسے پتہ تھا زمانہ بہت ترقی یافتہ ہے۔ اس زمانے میں بھی ہوائی جہاز تھے ۔ بحری بیڑے تھے ، بندوقیں تھیں
مگر اسے ان سب سے خوف تھا۔ ہوائی جہاز کی آواز سن کے اس کے اوسان خطا ہو جاتے۔ وہ کسی کھڑ میں چھپ کے بے حس و حرکت لیٹ جاتا۔ اپنے جسم پہ اس نے مٹی کا لباس پہنا ہوا تھا۔ گارے مٹی میں لتھڑا رہنے کا مزہ ہی اور ہے۔
تھوڑے ہی دنوں میں اس کے جسم پر بھورے بھورے بال اگ آئے ۔ وہ انسان سے چمپنزی کی قسم کی کوئی مخلوق بنتا جارہا تھا۔ اب وہ درختوں پہ اچھل اچھل کے چڑھتا ۔ صرف گھاس پھونس اور درختوں کے پھل پھول کھانے سے اسے انسانوں کی طرح پاخانہ نہیں آتا تھا۔ اونٹ کی طرح لینڈ نے آتے تھے ، کچھ اس انداز سے کہ رفع حاجت کے بعد بھی اس کا جسم خشک صاف ستھرا رہتا۔ اس کے بال بڑھ گئے ، ناخن لمبے ہو گئے ۔ جنگل میں ہر طرح کے جانور تھے۔ سانپ بہت تھے۔ بندروں کی بہتات تھی ۔ گیدڑ تھے ، بھیڑیے تھے۔ ریچھ تھے۔ شیر بھی تھے ۔ مگر وہ خود بھی دھیرے دھیرے انہی میں سے ایک ہو گیا تھا۔ ہاں اپنی عقل انسانی کی فوقیت کے باعث اس نے کسی درخت کا ایک بھاری سا موٹا لمبا ڈنڈا بنا کے اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ مگر اس ڈنڈے سے وہ کسی کو مجروح نہ کرتا تھا۔ صرف اس خیال سے رکھا تھا کہ اگر کوئی نا گہانی حملہ اس پہ ہو جائے تو وہ اپنا دفاع کر لے۔ اسے اس وقت صرف انسانوں سے خوف تھا۔
جاپانیوں کا ظلم ان کی قید اس نے دیکھ لی تھی۔ برمیوں سے اس کا واسطہ نہیں پڑا تھا۔ وہ ان کے بارے میں کیا رائے قائم کرتا۔ اس نے یہی طے کر لیا کہ اسے وہاں سے اٹھ کے کہیں نہیں جانا۔ وہ کہاں جاتا ۔ اس کا گاؤں جلندھر میں تھا۔ ہزاروں میل کا سفر وہ کیسے کرتا۔ پھر وہ راستوں سے کون سا آگاہ تھا۔ دن کو سورج دیکھتا تو دیکھتا رہتا۔ اسے اتنا پتہ تھا ، جس طرف سورج جا رہا ہے اسی طرف اس کا اپنا ملک ہے۔ مگر سورج کے ساتھ ساتھ زمین پہ چلنا بڑا مشکل ہے۔ اس کے لیے انسان کے پاس دھوپ جیسی رفتار ہونی چاہئے ۔ اور سوچو،
دھوپ چلتے ہوئے چلتی نظر ہی نہیں آتی اور چلتی اتنی تیز ہے کہ کوئی جہاز آج بھی اسے نہیں پکڑ سکتا۔ وہ تو پرانا زمانہ تھا۔ انیس سو بیالیس (1942) کی بات کر رہا ہوں ، جب صدر دشمن علاقے میں ایک مفرور نانگا سپاہی بنا چھپا ہوا کھڑ میں بیٹھا تھا۔ وہ تو ایک سپاہی تھا۔ یہاں تم نے دیکھا نہیں، بڑے بڑے کروفر جاہ و حشم والے تاجدار اپنے ہی وطن میں، پرائے دیسوں سے آئی نا مہربان فوجوں کے خون خرابے سے بھاگ کے کسی کھڈ میں جا چھپتے ہیں۔ وہ تو دشمن کے علاقے میں گھرا ہوا قید سے بھاگا ہوا سپا ہی تھا اور ننگا تھا۔ سوچو، صدر اس پہاڑ کی ڈھلوان پہ، گھنے جنگل پیچ چشمے کنارے کتنا عرصہ رہا۔ سوچو۔ اندازہ لگاؤ۔ ایک مہینہ، دو مہینے ، تین مہینے ؟ پتہ ہے مہینہ کتنا ہوتا ہے۔ ایک مہینے میں کتنے دن ہوتے ہیں۔ دن میں کتنے گھنٹے ۔ گھنٹے میں کتنے منٹ ۔ منٹ میں کتنے پل۔ اور پل پل میں کتنی سوچیں ۔ صدر کو خود وقت کی گنتی یاد نہیں رہی۔
وہ ٹائم مشین سے دس لاکھ سال پیچھے ہی نہیں گیا تھا ، وہ ٹائم کے پورے چکر سے ہی نکل گیا تھا۔ اب اسے کوئی غرض ہی نہیں تھی کہ یہ جانے کون سا دن ہے؟ کون کی تاریخ اور کون سا مہینہ۔ وہ تو کوئی چار پانچ مہینوں بعد موسم بدلا تو اسے احساس ہوا ، سردی آئی ہے۔ مگر تب تک، قدرت نے اسے آنے والی سردی سے کافی بے نیاز کر دیا تھا۔ چونکہ وہ پیشے کا فوجی تھا۔ اس نے اپنے چٹان گھر سے کوئی پانچ سو گز اوپر ایک مورچہ سا بنایا ہوا تھا ، جہاں وہ دن بھر اوپی کی طرح بیٹھ کے پہاڑ کے نیچے، بہت نیچے بڑی ندی کنارے، بل کھائی قیدیوں کے ہاتھوں نئی بنائی کچی پھر یلی سڑک پر جاپانی گاڑیوں کو کبھی کبھار چلتے پھرتے دیکھا کرتا تھا۔ اس مورچے کے آس پاس اس نے پتھر کچھ اس انداز
سے لگائے تھے کہ دور سے وہ قدرتی پڑے ہوئے معلوم ہوں۔ اس مورچے سے نیچے اپنی کھنڈ تک جانے کے لیے اس نے دو راستے بھی بنا لیے تھے۔ ایک دن کے لیے، دوسرارات کے استعمال کے لیے۔ چٹان کے نیچے اپنے کھڈ گھر میں نرم مٹی کی قبر جیسی گہری کھائی کے گرداگرد اس نے موسم کے لحاظ سے ہر طرح کا بندو بست کر لیا تھا۔ وہاں بارش بہت ہوتی تھی۔ اس نے ایسا انتظام کر کیا تھا کہ بارش کا پانی اس کی غار میں نہ جاتا۔ اب وہ اس جنگل کا باسی تھا۔ مدت سے اس نے اپنے حلق سے کوئی آواز نہیں نکالی تھی ۔ اس کا سارا کام آنکھیں کان اور ناک کرتے تھے۔ اس کی نگہ تیز ہوگئی تھی۔ اتنی تیز کہ دور درخت پہ بیٹھے پرندے کی چونچ میں پکڑی ہلتی سونڈی کے جسم کی دھاریاں تک وہ گن سکتا تھا۔ کان ایسے ہو گئے تھے کہ دور زمین پر رینگتے ہوئے سانپ کی حرکت بھی سن کے کھڑے ہو جاتے۔
گھاس کا ایک تنکا بھی ماحول کی سنگت سے ہٹ کے ہلتا تو اسے پتہ چل جاتا کون سا جانور آ رہا ہے اور سونگھنے کی جس ایسی ہو گئی تھی کہ وہ درختوں پہ پھر کہتے پرندوں کو صرف خوشبو سے آنکھیں بند کر کے جان لیتا تھا۔ دور اس کے گاؤں میں سارا کاروبار اسی طرح تھا۔ اس کی ماں بہن اور بھائی اپنے اپنے کاموں میں لگے تھے۔ اس کے بارے میں ان کا یہی خیال تھا کہ برما محاذ پہ کہیں مورچے میں بیٹھا گولیاں چلا رہا ہو گا۔ خود اس کی فوج میں جگہ جگہ الگ حالات تھے ۔ کہیں بحری بیڑے آپس میں بھڑ رہے تھے۔ ہوائی حملے ہو رہے تھے۔ ٹینک کہیں مصر اور سوڈان میں گولے داغ رہے تھے۔ تو میں چل رہی تھیں ۔ کوئی مر رہا تھا۔ کوئی مرنے جارہا تھا۔ کوئی قید میں کوڑے کھا کے خار دار تاروں کے جھنڈ کے اندر نیکر پہنے لیٹا ہوا تھا اور ساری دنیا سے الگ تھلگ، ایک جنگل میں صدر چھپا ہوا دس لاکھ سال پرانی
انسانی زندگی جی رہا تھا۔ پُرسکون ۔ نانگا۔ اس کا جی چاہتا تھا وہ کہیں نہ جائے اسی جنگل میں ہمیشہ کے لیے بس جائے۔ اس نے بچپن میں ٹارزن کی کہانی سنی تھی ۔ اسے محسوس ہوا جیسے وہ کہانی اسے سوچ کے لکھی گئی ہو۔ اسے جنگل میں بہت اپنائیت محسوس ہو رہی تھی ۔ چار پانچ مہینے جنگل میں ایک خاص مقام پر رکے رہنے سے اسے گردا گرد کے درختوں، جھاڑیوں، جھرنوں اور چشموں سے نکلنے والی ندی سے رشتے داری سی لگنے لگی تھی۔ درختوں پر گھونسلوں میں رہتے پرندے جیسے اس کے لنگوٹیے بن گئے تھے (حالانکہ اس کے پاس لنگوٹی بھی نہ تھی ) شروع شروع میں وہ محسوس کرتا کہ اردگرد کے پرندوں نے اس کے وہاں ڈیرہ لگا لینے پہ کچھ برا منایا ہے۔ وہ بھی بہت شور مچاتے ۔ کبھی ایک دم ایسے چپ سادھ لیتے جیسے اس پر حملہ کرنے کا سوچ رہے ہوں ۔ مگر پرندوں سے اس کا تعلق دور کا تھا۔
وہاں جنگل کا قانون عجیب تھا۔ ہر طاقت ور ، اپنے اسے کمزور کو پچھاڑ دیتا تھا۔ مگر اس جنگل کے قانون میں بھی نجیب تو ازن تھا۔ صدر نے یہ کبھی نہیں دیکھا کہ ایک بار پیٹ بھر لینے کے بعد کسی شکاری جانور نے دوسرا شکار کیا ہو ۔ پیٹ بھرا ہوا اور تفریحاً کسی زور آور نے کمزور کو مارا ہو۔ انسانوں کی طرح جنگل کے جانور اپنے شکار سے اپنے گھونسلے نہیں بھرتے ۔ انہوں نے کون سے فریج رکھے ہوتے ہیں کہ لالا کے شکار اس میں رکھتے جائیں۔ بس جب بھوک لگی کھا لیا۔ پیٹ بھر گیا تو کسی کی طرف بری نگاہ نہیں ڈالنی ۔ شکار کے لیے بھی شکاری جانور ایک بار وار کرتا۔ کوئی جان بچا کے بھاگ نکلتا تو شکاری جانور پیچھا کر کے اسے نہیں مارتا تھا۔ جو بھاگ لیتا اسے
بھاگ جانے دیتا۔ تھوڑی دیر تک دوڑ ضرور لگتی ۔ مگر اس سے زیادہ نہیں ۔ یہ نہیں کہ دشمنی پال لی ۔ آج بچ گیا کوئی تو کل آ کے پکڑ لیا۔ نہ وہاں جینے اور مرنے کے سیدھے سادے اصول صدر نے دیکھے۔ پہلی چیز اس نے یہ دیکھی کہ جنگل میں ہزار ہا طرح کی مخلوق ہونے کے باوجود کسی ایک جانور کی دوسرے سے دشمنی ہے ہی نہیں۔ ہاں ہر جانور کو یہ خبر تھی کہ کون سا جانور اس سے تیز اڑتا ہے، کون سا اس سے تیز بھاگتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی سی کوشش ضرور کرتے کہ اپنے سے طاقت ور سے بچتے رہیں۔ دوسری چیز پہلی سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھی۔ وہ یہ کہ جنگل کے سارے جانور، چاہے وہ الگ الگ نسل کے ہوں کسی بھی اچانک حملے میں ایک دوسرے کو بچانے کے لیے شور مچا کے اس کی مدد ضرور کرتے ۔ اکثر تو حملے سے پہلے ہی اسے چوکنا کر دیتے۔
صدر اپنی کھڈ کے باہر بیٹھا سارا دن ان جانوروں کی بھاگ دوڑ دیکھتا رہتا۔ کئی بار اس نے دیکھا کہ کوئی سانپ جب کسی چوہے کو پکڑنے کے لیے مکاری سے گھاس میں آہستگی سے بل کھاتا ہوا اس کی طرف بڑھتا تو قریب درخت کی ٹہنیوں پہ بیٹھی ہوئی کوئی چڑیا الگ ئروں میں چوں چوں شروع کر دیتی ۔ چوہا چوکنا ہو کے ایک دم سے پھر کتا اور کسی بل میں گھس جاتا۔ یہیں چوہے سے غلطی ہوتی۔ پتہ نہیں چوہوں کو ابھی تک اتنا پتہ نہیں چلا کہ سانیوں نے بھی اپنے لیے کھڑ نہیں بنائی۔ اپنی کھڈ میں گھس کے چوہا اپنا آپ ہی نہیں ، اپنا گھر بھی سانپ کے حوالے کر دیتا۔ صدر کو جنگلی سانپوں ، نیولوں، چوہوں اور اسی قسم کے کسی بھی جانور سے کوئی بیر نہیں تھا۔ نہ وہ صدر کو تنگ کرتے ۔ نہ صدر انہیں نقصان پہنچانے کا سوچتا۔ بھیڑیے ، گیدڑ، چیتے ، ریچھ اور شیر تک اس جنگل میں
تھے۔ اکثر وہ جانور اپنے اپنے معمولات میں پھرتے پھر اتے صدر کے آس پاس سے گزر جاتے۔ کبھی کبھار ہوتا کہ وہ صدر کو دیکھ کے اپنا رستہ بدل لیتے یا رستے میں کھڑے ہو کے منہ اٹھا کے تھوڑی دیر تک اسے دیکھتے رہتے اور سوچتے کہ یہ کون نو وارد ہے؟ مگر صدر ان کے لیے غیر متعلقہ تھا۔ صدر کے لیے بھی جنگل کے جانور سارے۔ بے فائدہ تھے۔ وہ اکثر سوچتا کہ اسے آگ جلانی آتی ہوتی تو وہ بھی کبھی کبھار اس جنگل سے کوئی پرندہ ، کوئی ہرن شکار کر کے بھون کے کھاتا۔ شروع شروع میں وہ پتھروں کو پتھروں سے مار مار کے چنگاریاں بھی جلاتا رہا۔ مگر کسی چنگاری سے آگ نہ بھڑ کی ۔ دھیرے دھیرے اسے گوشت کھانے کا ذائقہ ہی بھول گیا۔ وہ بندروں کی طرح مکمل سبزی خور بن چکا تھا۔ بندروں سے اس کا خاص یارا نہ تھا۔
بندر کبھی کبھا راکٹھے ہو کے اس کے آس پاس آ کے اچھلنے کودنے لگتے۔ جیسے کھیل رہے ہوں۔ یہ بھی ان کے ساتھ مستیاں کرتا۔ ان کی طرف پھل پھینکتا ۔ وہ درختوں پر چھلانگیں مارتے ، بھاگتے دوڑتے پھل توڑ توڑ کے اس کے پاس ڈھیر لگا دیتے۔ عجیب طرح کی زندگی تھی صدر کی۔ جانوروں سے جو چیز اسے الگ کرتی تھی ، ان میں سے ایک اس کی زبان تھی ، مگر وہ زیادہ استعمال کہاں کرتا۔ کبھی کبھی وہ جانوروں کی بولیوں سے ان سے کلام کرنے کی بھی کوشش کرتا۔ مگر جانور صدر کے منہ سے الٹ پلٹ آوازیں سن کے اس کا مذاق اڑاتے اور اپنی اپنی زبان میں خوب شور مچاتے ۔ جانوروں سے ممتاز کرنے والی دوسری چیز اس کا دو ٹانگوں سے کھڑا ہو کے چلنے کی عادت تھی ۔ مگر یہ انداز بھی بندروں نے اس سے سیکھ لیا اور تنگ کرنے کے
لیے اس کی نقل میں دو ٹانگوں سے کھڑے ہو کے چل پھر کے اسے دکھاتے اور اپنی زبان میں چھیں چھین کر کے یہ کہنے کی کوشش کرتے ، ہم پر کھڑا ہو کے چلنے کا رعب نہ دو۔ نہیں بھی یوں چلنا آتا ہے۔ تیسری چیز جو اسے اس کے پڑوسیوں سے جدا کرتی تھی ، وہ اس کی تیز انسانی عقل تھی۔ عقل دماغ پیالے میں بھرا ہوا وہ مشروب ہے جو شعور کے حلق اندر جب اترتا ہے تو بھونچال لاتا ہے۔ عقل سے بھراد ماغ انسانی حیاتیات کی سر تھیلی کا شہ سوار ہے جو کائنات کے رتھ پہ انسان کی سواری لیے ہر مقام کو تاراج کرنے پہ تلا بیٹھا ہے۔ یہی انسان کا سوچتا ہوا دماغ اسے باقی مخلوقات سے الگ کرتا ہے۔ دماغ تو وہاں ہر ذی جاں کا تھا۔ کیا پرندہ ، کیا چرندا کیا درندہ
ہر ایک کے دماغ میں اتنا سبق ضرور تھا کہ لیسے زندہ رہا جاتا ہے۔ مگر انسانی دماغ کے آگے وہ سب بے بس تھے۔ انسانی دماغ کا رخ صرف اپنی زندگی کی بقا تھوڑی ہے۔ انسان تو زیادہ یہ سوچتا ہے کیسے دوسرے کی زندگی کو اجیرن بنائے۔ کیسے دوسرے کو مار کے کھائے۔ کیسے دوسروں کے حصے کی چیزوں کو اپنے لیے جمع کرلے اور جمع کرتا جائے ۔ مگر شاید یہ جنگل کا اثر تھا کہ صدر نے انسانوں والی یہ سوچ نہ سوچی ۔ وہ جانوروں میں رہ کے انہی کی طرح معصوم سا ہو گیا۔ ڈنڈا اس نے ضرور بنا لیا تھا، مگر کبھی کسی کو اس سے مارا نہیں۔ کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ پانچ مہینے جانوروں میں رہ کے اسے وہ سارے اپنے کنبے کے ساتھی سنگی لگنے لگے۔ ہولے ہولے جانوروں نے بھی صدر کو اپنا لیا۔
وہ بے دھڑک اس کے آس پاس پھرتے رہتے۔ چڑیاں درختوں سے اتر کے اس کے پیروں میں بغیر گردن ادھر ادھر گھمائے ، دل جمعی سے اس کے گرائے ہوئے پھلوں کو قدم قدم چل کے کھاتی پھر تیں۔ بندر اس کے پاس بیٹھ کے دھوپ سینکتے اور
سانپ اس کے پیروں کے پاس آکے بھی اپنی راہ نہ بدلتے ۔ اسے جنگل سے نہیں بدلتے موسم سے خوف آرہا تھا۔ سردی دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھی۔ راتیں بھی لمبی ہو گئیں اور خنک بھی۔ ایک بار صدر نے پھر آگ جلانے کی کوشش کی ۔ کئی دن لگا رہا۔ مگر ہار گیا آگ نہ جلی۔ ایک ماچس کی تیلی مہینوں تک اس کی واحد خواہش رہی۔ مگر وہ ماچس کہاں سے لاتا۔ انسانوں سے دور بھاگ کے تو وہ آیا تھا۔ ایک آگ کے لیے وہ پھر انسانوں میں کیوں گھستا۔ دیکھو۔ آگ لانے کی تمنا ہر انسان میں رہی ہے۔ یہ تمنا کبھی کبھی انسان کو خدا کے رو برولا کھڑا کرتی ہے۔ بھول گئی ، حضرت موسیٰ" کو ۔ آگ لینے گئے تھے کہ اس سے ہاتھ تا ہیں ۔ آگے ایک جھاڑی میں آگ جلتی نظر آرہی تھی ۔ مگر وہاں سے بھی آگ نہ ملی۔ پیغمبری مل گئی۔
صدر جس دور میں جنگل میں رہ رہا تھا۔ وہ ختم الرسول کا دور تھا۔ نہ کسی جھاڑی سے آگ جلی نظر آئی نہ کوئی آواز اس نے سنی کہ جوتے اتار دو۔ پھر جوتے اس نے کون سے پہنے ہوئے تھے۔ ہاں ڈنڈا تھا اس کے پاس ۔ وہ بھی سانپ نہ بنا۔ الٹا سانپ کا ڈنڈا بن گیا۔ دن بھر دھوپ سینک کے دن گزار لیتا۔ رات کو مٹی میں چوہے کی طرح گھس کے ٹھٹھرتا رہتا۔ اوپر سے بارش کا موسم آ گیا۔ بارش کئی دن تک ہوتی رہی۔ اس کی چٹان کے نیچے بنی کھڈ میں پانی آنا شروع ہو گیا۔ اس کے مٹی کے بستر میں گارا بننے لگا۔ اس نے اپنی کھڑ کھود کھود کے گہری کی ۔ خشک مٹی نکال کے اپنا بستر دوبارہ تیار کیا۔ چٹان کے نیچے کونے کھدرے پتھروں سے درست کئے۔ باہر پانی کے لیے نالی بنائی۔ صرف ہوا کے لیے ایک راہ رہنے دی۔ باقی سب اطراف میں گارے مٹی سے پتھر جوڑ کے اپنی کھڈ خشک کر لی۔ بارش کا موسم لمبا ہو گیا۔ وہ دن کو زیادہ
وقت اپنی غار میں چھپا رہتا۔ صرف پیٹ بھرنے کے لیے پھل پھول کھانے یا پانی پینے باہر نکلتا ۔ پھر سردی سے کپکپا تا آکے اپنی کھڈ میں مٹی پلیٹ کے لیٹ جاتا۔ جاڑوں کے موسم میں لمبی راتیں بڑی مشکل سے گزرتیں ۔ خاص طور پہ جب جھڑی لگی ہوتی ۔ ٹپ ٹپ بارش برس رہی ہوتی اور بوند بوند پانی چٹان کے کناروں سے اندر پھیل رہا ہوتا۔ ایک رات عجیب حادثہ ہوا۔ وہ مٹی میں گردن سے نیچے اپنا پورا دھڑ دیے اپنی کھڈ میں سو رہا تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی ۔ کوئی چیز ، کوئی زندہ ہستی اس کے ساتھ لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے بدن کے روں روں کھڑے ہو گئے۔ خوف سے اس کا خون برف کی طرح سرد ہو گیا۔ اسے اپنے مٹی کے لحاف کے اندر گھس کے کسی کا کسمسا تالمس محسوس ہوا۔ وہ لرز کے مٹی میں چھ انچ اور نیچے ہو گیا۔ اتنے میں باہر زور سے بجلی چمکی۔
اس کی کھڈ کے سوراخ سے باہر آسمان پہ کڑکتی بجلی کی کوند سے لہر لہر روشنی کے بھبکے اندر آئے اور اس نے اس روشنی میں دیکھا کہ ایک بہت موٹا لمبا اثر دھا اس کے ساتھ لیٹا ہوا ہے۔ صدر کا سانس رک گیا۔ خوف سے ریڑھ کی ہڈی میں برف کی ڈلیاں سرکنے لگیں۔ اس کے ہاتھ پیر بے جان سے ہو گئے۔ دماغ ماؤف ہو گیا۔ اثر دھا دھیرے دھیرے سرکتا اس کے قریب سے قریب تر ہو رہا تھا۔ آسمانی بجلی کا پھر ایک لشکارا اندر آیا اور صدر نے دیکھا اثر د ھے کا موٹا سر اس کے چہرے سے چھ انچ کے فاصلے پر جھول رہا تھا۔ صدر کی سوچ فنا ہوگئی۔ اس کے دماغ نے سوچنا بند کر دیا۔ اسے محسوس ہوا، زندگی میں یہ اس کا آخری دیکھا ہوا منظر ہے۔ اسے پتہ تھا، اثر دھے نے منہ کھولا تو اسے سالم ہڑپ کر لے گا۔ پتہ نہیں اس کے
دانتوں میں کتنا زہر ہو ۔ صدر کو احساس ہو گیا ، اس کی موت کا سے آگیا۔ اور موت بھی کیسے آئی، آ کے ساتھ لیٹ گئی۔ صدر نے ہارے ہوئے سپاہی کی طرح ہتھیار ڈال دیے اور دھیرے دھیرے اپنی گردن موڑ کے دوسری طرف کر لی۔ اب اثر دھا مٹی کا لحاف ہٹا کے کہیں کہیں سے اس کی کمر کو چھو رہا تھا۔ اسے کمر پہ اژدھے کی سرسراہٹ محسوس ہوتی تو اسے لگتا اسے مرنے میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے۔ کیوں یہ عذاب لمبا ہو رہا ہے۔ لیٹے لیٹے اسے خیال آیا اس نے اپنا ڈنڈا بھی ساتھ لٹایا ہوا تھا۔ مگر ایک ڈنڈا اتنے بڑے ساتھ لیے اژدھے کا کیا بگاڑ لے گا۔ اثر دھا صدر جتنا موٹا تھا اور لمبا اس سے تین گنا زیادہ۔ اس لیے اپنا آپ پوری طرح اس کھڑ میں چھپانے کے لیے اسے صدر کے جسم کے اوپر اوپر سے کئی لہریے دینے پڑے۔ کہیں کہیں سے وہ صدر کے نیچے دبی مٹی میں بھی دھنستا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
شاید یہ میرے گرد لپٹ کے میری پسلیاں توڑ کے مجھے کھائے۔ صدر کا دماغ ناکارہ ہونے کے باوجود اژدھے کے ممکنا اگلے حربے سوچ رہا تھا۔ غار کی کھڑکی سے وقفے وقفے بعد بجلی چمک کے اندر روشنی کی بوندیں لا رہی تھی اور صدر کو اژدھے کے جسم کے خدو خال دکھا رہی تھی ۔ جو دوسری طرف منہ کر کے بھی صدر کو ہر طرف نظر آ رہے تھے۔ آخر صدر نے بھی سانپ کی طرح بل کھا کے دھیرے دھیرے ہلنا شروع کیا۔ ایک ایک انچ اوپر کو بڑھتا ہوا وہ آہستگی سے گڑھے کی کھڑکی طرف بڑھنے لگا۔ کئی باریوں سکڑتے ہوئے جسم براہِ راست اثر د ہے کے جسم سے رگڑا گیا۔ وہ کپکپاتا ہولے ہولے او پر ہوتا گیا۔ بیکی کی آتی جاتی چمک سے اسے اندازہ ہونے لگا کہ کھڈ سے نکلنے کا راستہ کتنی دور ہے۔
جب وہ اتنے فاصلے پر آ گیا کہ اپنا ایک ہاتھ اپنے پہو سے نکال کے، باز و لمبا کر کے گڑھے کی درز پکڑے : اس نے ہولے ہولے بازو او پر نکالا۔ دوسرے ہاتھ میں ساتھ لٹایا ہوا اپنا ڈنڈا پکڑے رکھا اور کھڈ کے دہانے پہ چٹان کو پکڑ کے ایک دم سے اوپر زور مارا۔ دوسرے ہاتھ میں پکڑی لاٹھی کی انی کو پیچھے دبایا اور پلک جھپکنے میں اپنا چہرہ گڑھے کی درز تک لے آیا اور پھر اژدھے کے بلوں میں دیتی جارہی اپنی ٹانگوں کو کھینچ کے باہر نکل آیا۔ جیسے بھی جاپانی خاردار تاروں کے کچھے سے وہ نکلا تھا۔ اسی طرح وہ اس کھڈ سے نکل کے بھاگ گیا۔ باہر طوفانی بارش تھی ۔ آسمانی بجلی تھی ۔ گارا پھسلن اور اونچے نیچے پتھر تھے اور اس کا سارا وجود ایسے کانپ رہا تھا۔ جیسے اس کے اندر بارودی سرنگیں پھٹ رہی ہوں ۔ پانچ مہینوں سے وہ جس جنت میں رہ رہا تھا۔ اس میں سانپ آ گھسا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ سانپ نے اسے ڈنگ کیوں نہیں مارا۔
۔ اسے کھایا کیوں نہیں ۔ وہ بیچ کیسے گیا۔ مگر جائے کہاں کتنی دیر وہ بچارہ سکتا ہے۔ باہر سارا جنگل منہ کھولے اب ات کھانے پہ تلا ہوا نظر آتا تھا۔ اوپر سے بارش تھمنے کا نام نہیں نے رہی تھی ۔ اسے زمین پہ سانپوں کے رینگتے ہوئے جسم محسوس ہو رہے تھے۔ اس سے زمین پر چلا نہیں جار ہا تھا۔ وہ ایک درخت پر چڑھ گیا۔ بارش ہوتی رہی ۔ بجلی چمکتی رہی ۔ ٹھنڈی ہوا کے یخ بستہ جھونکے اسے منجمد کرتے رہے۔ اسے پتہ تھا، درخت پر پرندوں کے گھونسلے ہیں۔ مدتوں تنکا تنکا اکٹھا کر کے انہوں نے ایسے محفوظ گھر درخت پر بنائے ہوئے ہیں کہ بارش کی ایک بوند بھی انہیں نہیں بھگوتی۔ نہ ٹھنڈی ہوا کیا پچکاریاں ان تک جاتی ہیں۔ پھر خدا نے ان پرندوں کو کیسے آرام دہ گرم پروں کے لباس بخشے ہیں۔
صدر کو پرندوں کی قسمت پر رشک آرہا تھا۔ وہ لاکھوں ہزار ہا سال کی اپنی انسانی کمائی ہوئی عقل ہمت اور چالا کی کو پرندوں سے حقیر اور کم تر سمجھ کے شرمندہ ہو رہا تھا۔ پتہ نہیں رات کتنی باقی ہو۔ بارش کب تھے۔ ٹھنڈی ہوائیں کب تک آرے کی طرح اس کا جسم چیرتی رہیں۔ وہ رات صدر کے لیے جاپانی قید خانے کی رات سے کہیں زیادہ تکلیف دہ تھی ۔ مگر اس رات کی قسمت میں بھی سویرا تھا۔ آخر صبح ہوگئی۔ یہ الگ بات ہے کہ صبح ہونے تک صدر اپنی زندگی کی بوند بوند ہوتی ساری حرارت یکجا کر کے ، اپنی روح کی حدت سے اس سردی سے لڑتا لڑتا ، چوڑے چوڑے پتوں والے ایک درخت میں اوپر بیچ تک اندر گھساد بکا بیٹھا رہا۔ درخت پر چڑھ کے ایسی طوفانی بارش میں ننگے سہمے ہوئے انسان کو نیند تھوڑی آتی ہے۔ وہ کیسے سوتا ؟
مگر رات صرف سونے والوں کے لیے ہی تو نہیں گزرتی ۔ جاگنے والوں کی قسمت میں بھی صبح ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جاگنے والے دیر تک رات کو جیتے ہیں سہتے ہیں اور بہت شدت سے صبح کا انتظار کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے ایسے لوگوں کے نصیب میں جب صبح آتی ہے تو وہ اس کی قیمت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے اس کا کتنا انتظار کیا۔ کیسے انتظار کیا۔ شاید مصبح بھی یہ راز جان لیتی ہے۔ اور جب ایسے لوگوں پہ اپنا چانن لے کے طلوع ہوتی ہے تو بہت مہربان ہوتی ہے۔ اسے علم ہوتا ہے، یہی وہ شخص ہے ، جو میر کی قیمت سے آگاہ ہے۔ جو جانتا ہے میری راہ میں کاٹا ہوا سفر کیسا تھا اور کتنا لمبا تھا۔ ایسے
شخص کی آنکھوں سے پھر صبح کی روشنی نہیں اترتی۔ اتر کے کہیں اور نہیں جاتی۔ وہیں کہیں اس کے جسم کے کسی اعلیٰ مقام میں ، اس کی روح کے اندر سب سے معتبر جگہ پر اپنا بچھونا ڈال کے رک جاتی ہے اور ہمیشہ کے لیے اس میں اسی روشنی کا پیوند لگا دیتی ہے۔ سمجھ آئی ؟ تم سمجھ رہی ہو میں ابھی تک صدر کی باتیں کر رہا ہوں۔ سادی ہو۔ اس نے تو جاڑے کی یخ بستہ سردی میں کپکپا کے درخت پر چڑھ کے پتوں میں گھس کے پرندوں کے آرام دہ گھونسلوں کو دیکھتے ہوئے ایک رات گزاری تھی۔ مجھے تم نے سال ہا سال سے اپنے گھونسلے سے دور بٹھا کے خاردار ٹہنیوں میں پھنسا کے لٹکایا ہوا ہے اور تم کیا بجھتی ہو ۔ سانپ صرف جنگل میں بنے کھنڈ میں جھڑی کے دنوں میں سرکتا ہوا آ کے بندے کو چمٹ کے لیے جاتا ہے۔
میری پیاری ! اس سانپ نے تو ڈنگ بھی نہیں مارا۔ نہ اس نے حلق کھول کے صدر کو کھایا تھا۔ یہاں تو شہروں میں ایسے سانپ ہوتے ہیں جو ساتھ لیٹ کے ڈنگ بھی مار جاتے ہیں اور کھا بھی لیتے ہیں ۔ چلو میں اپنی کہانی نہیں سناتا۔ تم اپنی بات کہو ۔ بولو، کیا غلط کہہ رہا ہوں ۔ دیکھو، سینے پہ ہاتھ رکھ کے سچ کہنا۔ ہما ہمی میں اپنی ناک اونچی رکھنے کی خاطر سچ کو تیاگ نہ دینا۔ تم جانتی ہو، زہر صرف سانپ کی زبان میں ہی نہیں ہوتا بلکہ سانپ کی زبان میں تو ہوتا ہی نہیں ، اس کی زبان کے نیچے رکھی تھیلی میں ہوتا ہے۔ جو اس کے دانتوں میں بنی موریوں سے ٹیکا لگاتا ہے۔ مگر انسان کی زبان کا زہر صرف اس کی زبان کے ہلانے سے ڈنگ مار دیتا ہے۔ اسے ڈنگ مارنے کے لیے دانت چھونے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ پھر سانپ کے زہر کا تو تریاق بھی ہے۔ انسان کی زبان کے کالے
ہوئے گھائل کے لیے کوئی تریاق نہیں ۔ کہیں تو چلتا مسافر رکے گا اور تمہاری راہ پر نکلے مسافر کے لیے اپنے قیام کی خاطر تمہارے پیٹ سے بہتر کون کی قیام گاہ ہے۔ ہے کوئی؟ اب اس بات سے وہ معنی نہ نکال لینا جو مدت سے ہر ساتھ لیٹتا ہوا اثر دھا نکالتا آیا ہے۔ عورت کے پیٹ میں صرف جنے جانے والے بچے ہی نہیں پلتے ۔ ان بچوں کے باپ بھی پالے جاتے ہیں اور مرد کی حماقت دیکھو، اسے آج تک اس کی سمجھ نہیں آئی۔ پھر مجھ سے کیوں صرف ایسی سمجھ داری کی توقع ہے؟ خیر صدر سمجھ دار تھا۔ اگلی صبح ہوئی تو اس نے پلٹ کے اپنی کھڈ کو نہیں دیکھا۔ درخت سے اترا اور جدھر سورج کی راہ تھی،
جدھر وہ جا رہا تھا، اُدھر چل پڑا۔ اس کے اوپر سے اسی دن دو جنگی ہوائی جہاز تیزی سے اسی طرف بھاگتے اُڑتے اسے نظر آئے۔ اس نے پہچان لیا۔ وہ اس کی فوج کے تھے۔ ایک برطانیہ کا فیوری دوسرا امریکی لائٹنگ جو دیکھنے میں ایسا لگتا جیسے دو جہاز آپس میں جوڑ رکھے ہوں۔ اسے خیال آیا کہ یہ علاقہ اب اس کی فوجوں کی زد میں ہے۔ شاید اس کی زمینی فوج زیادہ دور نہ ہو۔ شاید وہ ان تک پہنچ جائے۔ جب سے اس نے برستی بارش میں رات بھر درخت میں اٹک کے پرندوں کے آرام دہ گھونسلے قریب سے دیکھے تھے۔ اسے اپنا گھر شدت سے یاد آنے لگا تھا۔ ایک دن پہاڑی راستوں پہ چڑھتا اترتا، اپنا ڈنڈالئے وہ اپنے گاؤں کو سوچتا چلا جا رہا تھا۔ کہ اچانک ایک چٹان سے ابھرتے ہوئے اسے اپنے سامنے ایک شیر کھڑا نظر آ گیا۔ شیر بھی کوئی معمولی شیر نہیں ۔ بارہ فٹ لمبا ببر شیر۔ تین فٹ چوڑا اس
کا چہرہ اور چہرے کے گرد دو فٹ چوڑی داڑھی ۔ کھڑا بر شیر سیدھا صدر کو ٹکٹکی لگا کے دیکھ رہا تھا۔ شاید پہاڑی کی چڑھائی پہ چڑھتے ہوئے اس کے قدموں کی آواز سن کے شیر پہلے ہی کھڑا ہو گیا تھا۔ صدر چند گز کے فاصلے سے بر شیر کو کھڑا دیکھ کے سن ہو گیا۔ اس پر سکتا طاری ہو گیا۔ سارا خون اس کا اس کے جسم میں جیسے گردش بھول کے اس کی ٹانگوں میں جمنے لگا۔ صدر سے کھڑا نہ ہوا گیا۔ اس کے جہاز میں آنا فانا تار پیڈ و لگ گیا۔ اب جہاز سے چھلانگ مارنے کا وقت بھی نہ بچا۔ وہ کھڑا کھڑا گردن جھکا کے بر شیر کے آگے ادب سے گھٹنے ٹیک کے بیٹھ گیا۔ وہ ساعتیں عجیب تھیں۔ صدر نے اپنی موت کبھی ایسی نہ سوچی تھی جو اچانک اس کے اتنے قریب آ کے کھڑی ہو جائے۔ صدر نے سر جھکایا ہوا تھا، مگر آنکھیں کھولے ببر شیر کو ایسے دیکھے جارہا تھا کہ جیسے اسے کہہ رہا ہو۔
تو جنگل کا بادشاہ ہے۔ یہاں واقعی دیکھنے میں تجھ سے بڑا طاقت ور کوئی نہیں ، اگر تو بھی یہی مان رکھتا ہے تو تیری مرضی کھا لیے۔ ہاں اگر تجھے علم ہے کہ کوئی تیرے بھی ارادوں کا تعین کرتا ہے اور ہر لحاظ سے تجھ سے بڑا ہے۔ تو میں بچ گیا۔ تم سوچو، شیر کے سامنے ایسی سوچ کی کیا اہمیت ہوگی۔ مگر کوئی اور ہستی ہے۔ جو شیر کے ہر ارادے کا رخ مقرر کرتی ہے۔ اس نے شاید صدر کو وہاں شیر کا لقمہ بنانا نہ لکھا تھا۔ شیر کیسے صدر کو کھاتا۔ ایک دو گھڑی وہ صدر کو اپنے سامنے دوزانو ، لاچار بیٹھے ہوئے دیکھتا رہا۔ پھر جیسے کسی خیال سے مسکرایا اور ایک طرف کو رخ موڑ کے ایک دو بار صدر کو دیکھا، مگر رکا نہیں ۔ اسی شانِ
دلبری سے چلتا ہوا صدر کے داہنی طرف نکل گیا۔ صدر مبہوت ہوا اسی طرح دوزانو بیٹھا شیر کو اپنے سامنے سے رخ بدل کے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اٹھ کے کھڑا نہ ہوا، نہ بھاگا، نہ بھاگنے کا سوچا۔ اس کی زندگی کا وہ نا قابل فراموش منظر تھا۔ جب موت اس کی آنکھوں میں اتر کے اسے چھوڑ کے ایسے دلبری سے جا رہی تھی، جیسے موت نہ ہو محبوبہ ہو ۔ جنگل بیابان میں پردیسی نانگا مفرور قیدی تھا۔ چلتا رہا۔ اب وہ کسی ایک مقام پہ نہ رکتا ۔ جہاں رات آتی ، کسی درخت پر چڑھ جاتا۔ پرندوں کے گھونسلے دیکھتا اور گاؤں میں اپنا گھر یاد کرتا۔ پتہ نہیں درخت پر چڑھے بندے کو کیسے نیند آجاتی ہے۔ ہمیں بستر پہ نہیں آتی۔ وہ درخت پہ چڑھا سو جاتا تھا۔ نیند کوئی بھی ہو، ایک نہ ایک وقت آتا ہے جب سوئے ہوئے کو جگایا جاتا ہے۔ وہ جاگ پڑتا ہے۔ وہ لمحہ اگلی صبح ہو یا اگلا جنم ، اگلے جہان کا پہلا دن نیند مستقل نہیں ہوتی ۔ جگایا جاتا ہر نیند رات کی صبح ہے۔
میں تو ایسی اک صبح کی دعا کرتا ہوں، جب آنکھیں کھولوں تو تمہیں دیکھوں ۔ بولو، ایسی صبح کب دو گی ۔ دیکھو، اب میں اس رات کی بات نہیں کرتا ، جب سوؤں تو تمہیں دیکھ کے سوؤں ۔ شاید یہ نصیب یسے بڑھ کے بڑی کوئی آرزو ہے۔ پھر ہے بھی سچ کہ تمہیں دیکھ لیا تو پھر نیند کیسی؟ نیند تو فرار ہے۔ تجھ سے فرار کیسے ممکن ہے۔ میں تو ایسے ملن کی دعا کرتا ہوں، جو کبھی تو ہو، چاہے اس دن، جب سارے سوئے ہوؤں کو جاگے جانے کا بگل سنائی دے۔ تم بھی وہیں ہو۔ میں بھی وہیں ہوں اور ہم دونوں مل کے اس جہان میں دن
رات بنانے والے کو اس سے دیکھیں، جب دن اور رات کی فصیلیں گرادی جائیں، صبح اور شام کی گردش سے ہماری گردنیں نکل آئیں۔ جب اندھیرے کا کوئی خوف نہ ہو ۔ جب روشنی ایسی شفاف اجلی اور پاوتر ہو کہ وہ کسی نانگے کو نگانہ کرے۔ لباس بن کے ڈھانپ لے۔ لباس بھی ایسا جو ایک خوشبو بن کے پوری کائنات میں پھیلا ہوا ہو اور پھر وہ مقدس خوشبو اپنے الوہی جسم کو پہنے اور ہمیں اپنے دیدار کا اذن دے اور ہم اکٹھے اسے دیکھ کے سجدے میں گر جائیں اور کبھی سر نہ اٹھا ئیں۔ بولو، اس لمحے اس ایک سجدے میں ساتھ دو گی۔ سوچ لو۔ اقرار کرنے سے پہلے غور کر لو کہ وہ من ایسا ہونا ہے کہ پھر جدائی کا جواز نہیں رہنا۔ ہم نے اس کے رو بروا ایسے رہنا ہے جیسے پھول میں خوشبو ۔ خوشبو کو تم کیا بجھتی ہو ۔ یہ کوئی کمزور چیز ہے۔ تو بہ کرو۔
اس سے طاقت ور مقناطیس کوئی نہیں بنا۔ یہ تو ہم نے جہان کو دھوئیں، غلاظت اور گندے من سے اتنا میلا کیا ہوا ہے کہ ہماری سونگھنے کی جس کم ہو گئی ہے۔ صدر کا سوچو۔ مہینوں انسانوں کی بنائی ان بستیوں سے دور بستے ہوئے اس کی سونگھنے کی حس ایسی تیز ہو گئی تھی کہ ایک ذراسی انہونی مہک کا جھونکا اسے میلوں دور سے آسنائی دیتا۔ ایک دن عجیب حادثہ ہو گیا۔ مہینوں بعد اس ویرانے جنگل بیابان میں اسے اُبلے ہوئے چاولوں اور پکتی ہوئی مچھلی کی خوشبو آ گئی۔ اس کے پیٹ کے اندر کا مہینوں سے سلایا ہوا شیطان ایک دم سے انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھا اور اس کے پورے وجود پر حکم لکھ گیا کہ چلو ۔ ڈھونڈو۔ اسی مہک کی طرح
اور مجھے ابلے چاول اور پکی ہوئی مچھلی کھلاؤ۔ صدر چل پڑا۔ خوشبو اسے ایسے کھینچے لے گئی جیسے پتنگ کو ڈور۔ رات کا سمے تھے۔ چاندانی رات تھی۔ اسے چاندنی رات میں دیکھنے کی ایسی عادت تھی ، جیسی بلی کو اندھیرے میں ہوتی ہے۔ کوئی سوا گھنٹے میں اس نے جنگل کے اندر بنا بانسوں کا وہ جھونپڑا دیکھ لیا جس کی درزوں سے اس بے باک خوشبو نے نکل کے سارا جنگل تاراج کیا ہوا تھا۔ تمہیں پتہ ہے اس جھونپڑے کے اندر کون تھا چاول ابالنے اور مچھلی پکانے والا ؟ وہ ایک آدم خور وحشی انسان تھا۔ وہ زندہ انسان پکڑ کے ان کا خون پیتا اور کبھی کبھار جشن منانے کے لیے چاول ابال کے مچھلی کے ساتھ کھاتا تھا۔
صدر اپنے میزبان سے بے خبر بھاگا بھاگا اس جھونپڑے کے پاس پہنچ گیا۔ وہ تو اس کی آنکھوں میں دیکھنے کی جس تیز تھی۔ جو اسے آدم خور کے جھونپڑے کے پاس ایک گڑھے میں انسانوں کی ہڈیاں نظر آگئیں۔ انسانی کھوپڑیاں دیکھ کے کس انسان کو شک رہ جاتا ہے کہ ان بدنصیب انسانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ہو گا۔ صدر کا چاول اور پچھلی کھانے کا سارا فتور نکل گیا۔ اسی گڑھے کے آس پاس انسانی اعضاء کی ہڈیاں ایسے بکھری ہوئی تھیں جیسے دسترخوان کے گردر ہی سہی خوراک ۔ ٹانگوں کی لمبی لمبی ہڈیاں ، فيمرز ، ٹیبیا، فیبولا ، بازوؤں کی ہڈیاں الناریڈلیس اور پورے ہاتھوں اور پیروں کے پنجے ۔ صدر کو انسانی بدیوں کے نام تو معلوم نہیں تھے ۔ مگر اسے پتہ تھا کون سی ہڈی کس جگہ کی ہے۔ کچھ دیر تو وہ مبہوت ہوا سکتے میں کھڑا رہا۔ پھر اس کے اندر سال ہا سال کی لڑی جانے والی جنگ کا سارا فتور آ گیا اور اس نے فیصلہ کر لیا۔ اس جھونپڑے میں جو بھی بلا ہے وہ اسے مارے گا۔ ان بے گناہ ان
گنت انسانوں کے خون کا بدلہ لے گا۔ اس نے اپنا ڈنڈا بندوق کی طرح پکڑ لیا اور پنجوں کے بل آہستگی سے چلتا ہوا جھونپڑے کے دروازے کے قریب ایک درز پر آنکھ رکھ کے اندر تکنے لگا۔ جھونپڑے کے اندر ایک کونے میں کچھ انسانی کھوپڑیوں کے اوپر کسی انسان کے کے ہاتھ کی ہتھیلی میں تیل ڈال کے روٹی کی بنائی بتی ڈال کے ایک دیا جلا کے رکھا تھا۔ اس کی دہشت ناک پیلی روشنی نسوں میں خون منجمد کرنے والی تھی۔ اسی تھر تھراتی روشنی میں جھونپڑے میں ایک طرف کچھ پتھروں کا چولہا بنا کے اس پہ ایک بڑا سامٹی کا مٹکا رکھا ہوا نظر آیا۔ مٹکے کے اندر سے مچھلی کے پانی میں پکنے کی خوشبو اور آواز آرہی تھی ۔ منکے کے نیچے پتھروں کے بنے چولہے میں لکڑیوں اور انسانی ہڈیوں کی آگ جل رہی تھی۔
ساتھ ہی ایک کپڑا بچھا کے اس پہ ابلے ہوئے چاول ڈھیری کیے ہوئے تھے ۔ چاولوں سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ لگتا تھا انہیں ابالے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوتی۔ مٹکے میں پکتی پچھلی سے کچھ ایسی مہک آتی تھی جیسے پکتے پکتے اب وہ مٹکے کے پیندے کو لگ رہی ہو۔ چاولوں سے کوئی ڈھائی فٹ کے فاصلے پہ زمین یہ ایک بہت لمبا تڑنگا انسان لیٹا سو رہا تھا۔ اس کے خراٹے عجیب آواز دے رہے تھے جیسے کوئی جانور ذبح ہو رہا ہو ۔ اس کا بدن ننگا تھا۔ صرف کمر پہ ایک چادری لپیٹ کے اس نے اپنا ستر ڈھانپا ہوا تھا۔ اس کا رنگ سیاہی مائل مگر چمکدار تھا۔ جسم پر بال ہی بال تھے ۔ چہرہ بڑا چوڑ ا سا تھا۔ سر پر گھنگھریالے سے بے ہنگم بڑے بڑے بال تھے اور چہرے پہ سر کے بالوں جیسی بڑی بڑی داڑھی اور مونچھیں تھیں ۔ اس کے نتھنے وقفے وقفے سے ہر سانس کے ساتھ پھیل رہے تھے ۔ جیسے اس کے ناک کے اندر کچھ غدود میں بڑھی ہوئی ہوں اور وہ زور لگا کے سانس لے رہا ہو۔ ہر سانس کے ساتھ ایک لمبا سا ڈراؤ
ناخز اٹا تھا۔ اس گہری خراٹوں والی نیند سے لگتا تھا جیسے وہ ابھی ابھی سویا ہو ۔ وہ بالکل سیدھا چت لیٹا ہوا تھا۔ اس کی موٹی سی ناک سیدھی جھونپڑے کی چھت کی طرف تھی ۔ ٹانگیں سیدھی اور تھوڑی کھلی تھیں ۔ باز و اس بلانے اپنے پیٹ پر رکھے ہوئے تھے۔ جھونپڑے کے اندر ایک دو اور بھی مٹی کے مٹکے تھے۔ شاید ایک میں پانی ہو، صدر نے سوچا، کیونکہ وہ مٹکا کچھ گیا ا نظر آتا تھا، اور اس پر مٹی سے بنا ہوا ایک ایک سگ بھی پڑا تھا۔ سوئے ہوئے عفریت کے پاس ہی بانسوں کے جھونپڑے کی دیوار کے ساتھ ایک لوہے کا چوڑے پھل والا عجیب سا ہتھیار پڑا تھا۔ جو آگے سے تلوار کی طرح خم دار تھا مگر پیچھے بڑا سا لکڑی کا دستہ لگا ہوا تھا۔ صدر اس اہنی ہتھیار کو بہت غور سے تکنے لگا۔ تلوار نما بر چھے کا لوہا اتنا چمکدار تھا کہ لگتا تھا اسے روز پتھروں پر تیز کیا جاتا ہو گا۔
صدر جھونپڑے کی اوٹ میں بانسوں کی درزوں سے دیکھتا ہوا سوچنے لگا کہ برچھا دروازے سے کتنی دور ہے۔ اس نے دیکھ لیا کہ جھونپڑے کے دروازے سے صرف ایک قدم بڑھ کے وہ یہ برچھا اٹھا سکتا ہے۔ اسی لمحے وہ دروازے پہ لپکا اور آنا فانا بر چھے کو اٹھا کے سوتے ہوئے عفریت کی گردن پہ اتنے زور سے مارا کہ برچھے کی دھار اس کی گردن کاٹ کے زمین میں دھنس گئی ۔ عفریت کا پورا بدن بم سے اڑتی ہوئی چٹان کی طرح اچھلا اور دھب سے گر کے تڑپنے لگا۔ کئی گردن کی نسوں سے خون زور مار کے یوں بچکا ریوں میں اچھلنے لگا جیسے کوئی بھینسا ذبح کیا گیا ہو ۔ اس کا چہرہ بہر حال ایک دم سے ساکت ہو گیا مگر پتہ نہیں کیسے سوتے ہوئے عفریت کی آنکھیں ایک دم سے کھل کے جھونپڑی کی چھت کو تکنے لگیں ۔ صدر نے خوف سے عفریت کا چہرہ دیکھا پھر اسے بالوں سے پکڑ کے اٹھایا اور جھونپڑے کے باہر اس کے مارے ہوئے انسانوں
کی ہڈیوں کے کھنڈ میں پھینک دیا ۔ تڑپتے لرزتے خون اگلتے اس کے دھڑ کو کھینچ کے چاولوں کے ڈھیر سے دوسری طرف کیا کہ مبادا اس کی کئی گردن سے ابلتا جھٹکے مارتا خون چاولوں پہ نہ جا گرے۔ صدر نے پھر چولہے پہ رکھا ہوا مچھلی والا مٹکا چاولوں کے ڈھیر پہ ڈھیری کیا اور چاولوں کو اسی کپڑے میں باندھ لیا۔ عفریت کی بغیر سر کے تڑپتی ہوئی لاش ابھی تک لرز رہی تھی ۔ صدر نے آگے بڑھ کے اس کئی لاش کی کمر پہ لپٹی ہوئی لوگی کھول کے کھینچ لی۔ سرکئی لاش نگی ہوگئی اور صدر نے وہی لونگی جلدی سے اپنی کمر پر باندھ لی اور چاولوں اور مچھلی کی گرم گرم پوٹلی اٹھا کے ، ہاتھ میں برچھالئے تیزی سے اس جھونپڑے سے باہر آ گیا۔ اب صدر نانگا نہیں تھا۔
نانگا سر کٹا جھونپڑے میں پڑا ابھی بھی خون اگل رہا تھا اور اس کا سر آنکھیں کھولے ان ہڈیوں کے ڈھیر میں پڑا تھا جنہیں اس نے اک اک کر کے ان کے جسموں سے چونڈ چونڈ کے نکالا تھا۔ صدر بھاگم بھاگ اس جھونپڑے سے دور جارہا تھا۔ چاولوں اور مچھلی والی گھڑی ابھی اس نے کھوئی نہیں تھی ۔ بندھی ہوئی گٹھڑی وہ بائیں ہاتھ میں لٹکائے ، دائیں ہاتھ میں برچھا پکڑے بھاگا جارہا تھا۔ صبح ہونے میں ابھی بہت دیر تھی ۔ رات کا پہلا پہرا بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ بھاگتے بھاگتے اچانک اسے محسوس ہوا کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ جنگل میں مہینوں رہ کے ہر قسم کے ذی روح کے قدموں کو پہنچانتا تھا ۔ اس کا پیچھا کرنے والا کوئی جانور نہیں تھا، انسان تھا اور اس پیچھا کرنے والے انسان کے قدم کہہ رہے تھے کہ وہ کوئی نانگا نہیں ہے ۔ (جاری ہے) دروازہ کھلتا ہے سے ایک باب