![]() |
Hazarat-Bilal-e-Habshi-ki-Takleef |
سید تا بلال حبشی کی تکالیف امیہ بن خلف عین شدید گرمی کے ٹائم سیدنا بلال کو تپتی ریت پر لٹا دیتا اور مکہ کی گرمی تو ضرب المثل ہے علما نے تو مکہ کی گرمی سے مسائل نکالے ہیں کہ: اور آپ صبر کریں جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا۔ ملاعلی قاری نے مسئلہ لکھا ہے کہ آدمی اگر گھوڑے ٹیچر یا گدھے پر سوار ہو اور اس جانور کا پسینہ کپڑوں کو لگ جائے تو کیا وہ کپڑے پاک ہوں گے یا دھونے پڑیں گے۔ تو انہوں نے لکھا کہ کپڑے پاک رہیں گے ان کو دھونے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ جانور کا پسینہ پلید نہیں ہوتا اور دلیل یہ دی که حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دراز گوش پر سواری فرمائی اور ملائی قاری فرماتے ہیں کہ یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مکے کی گرم
ی ہو اور بوجھ نبوت کا ہو اور پسینہ نہ آئے جانور کو لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سواری کے بعد کپڑے نہیں دھوتے تھے اس کا مطلب ہے جانوروں کا پسینہ پاک ہے تو سکے کی گرمی تو اتنی مشہور ہے اور حضرت سیدنا بلال حبشی کو عین دو پہر کے ٹائم جب پھر خوب گرم ہو جاتے ریت انگارہ ہو جاتی تو وہ ظالم بغیر کرتے کے لٹا دیتے۔ سینے پر بہت بڑے پتھر کی چٹان رکھ دیتے اور کہتے بلال اقرار کر ولات وعزبی کا اور چھوڑو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) جبکہ بلال اس عالم میں کہتے احد، احد، احد اور یہی کہتے کہتے بے ہوش ہو جاتے اور جب ہوش آتا دوباره احد احد پکارنا شروع کر دیتے ۔ حتیٰ کہ آپ کا یہ نعرہ اتنا مشہور تھا کہ بعد میں ایک دفعہ
مسلمانوں نے آپ سے پوچھا کہ اور بھی تو اللہ کے کئی ذکر موجود ہیں جیسے لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر سبحان اللہ وغیرہ لیکن آپ صرف احد احد کے نعرے کیوں لگاتے تھے تو جوا با فرمایا اصل بات یہ ہے کہ کا فرسب سے زیادہ اس بات سے چڑتے تھے اس لیے میں جان بوجھ کر ان کو جلانے کے لیے یہ نعرہ لگاتا اور دلیل ایمان بھی یہی ہے کہ کافرکو جلاؤ اور ان سے بیزاری کا اعلان کرو۔ کفر سے دور از گوش گدھے کو کہتے ہیں مگر آپ کے ادب کی وجہ سے اسے دراز گوش لکھا جاتا ہے کیونکہ گدھا تھوڑا غیر مہذب نام ہے۔
د از گوش گدھے کو کہتے ہیں مگر آپ کے ادب کی وجہ سے اسے دراز گوش لکھا جاتا ہے کیونکہ گدھا تھوڑا غیر مہذب نام ہے۔
حکایت ۔ جولائی 2011 ء 134 ، خیر حضرت بلال کو مارا پیٹا جاتا اذیتیں دی جاتیں بعض اوقات تو بد بخت امیہ بڑے بڑے کانٹے لے کر بدن میں چھوتا لیکن اس حال میں بھی بلال احد احد کا نعرہ لگاتے رہتے ، اور تکلیفیں سہتے سہتے بے ہوش ہو جاتے ۔ ایک دن امیہ بن خلف بلال کی امی کے پاس آیا اور کہا دیکھو تم اپنے بیٹے کو سمجھاؤ میں اسے اسی طرح تڑپا ت پا کر مار ڈالوں گا ورنہ اسے کہو کہ دین محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) چھوڑ دے۔ بلال کی امی آئیں دیکھا تو بے چارا تپتی ہوئی ریت میں جلتے ہوئے پتھروں کے اوپر پڑا ہے اور بیہوش ہے۔ ماں نے پانی کے قطرے ڈالے سرہانے بیٹھی بلال ہوش میں آگئے ۔ ان کی امی بھی در پردہ ایمان لا چکی تھیں مگر کفار کے خوف سے اس نے اپنے دین کو چھپایا ہوا تھا۔ اس نے کہا۔ " دیکھو بلال تمہیں پتہ ہے میں بھی مسلمان ہوں لیکن ہم ایسی حالت میں ہیں کہ کفر کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، ہم مجبور ہیں بے بس ہیں تو تم امیہ کی بات کیوں نہیں مان لیتے بس اوپر اوپر سے کہہ دو کہ میں نے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور یہاں سے نکل جائیں گے آہستہ آہستہ کہیں اور چلے بیزاری کا اعلان کرو ۔ صرف یہ نہیں کہ تم اللہ کی توحید کا اقرار کر لو، اقرار کے ساتھ مشرکین سے بھی برات کا اظہار ضروری ہے۔ اللہ نے قرآن مجید میں پوری سورہ براۃ نازل کی اور جب تک ہم کفر سے برکت نہیں کریں گے ہمارا ایمان ایمان نہیں رہے گا، یعنی ایک ہیں دنیوی تعلقات ، وہ الگ چیز ہیں لیکن قلبی طور پر آدمی با لکل مشرکین سے برأت کا اظہار کرے ۔ جائیں گے جب اللہ موقع دے گا تو پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آجائیں گے۔ بلال انس دیئے اور کہنے لگے ۔ اماں آج تو مجھے یقین ہو گیا کہ مکے کے کافر ہار گئے ، شکست کھا گئے ، آج مجھے تسلی ہوگئی۔ اطمینان ہو گیا کہ میں جیت گیا"۔
بیزاری کا اعلان کرو۔ صرف یہ نہیں کہ تم اللہ کی توحید کا اقرار کر لو، اقرار کے ساتھ مشرکین سے بھی برأت کا اظہار ضروری ہے۔ اللہ نے قرآن مجید میں پوری سورہ براۃ نازل کی اور جب تک ہم کفر سے برکت نہیں کریں گے ہمارا ایمان ایمان نہیں رہے گا، یعنی ایک ہیں دنیوی تعلقات ، وہ الگ چیز ہیں لیکن قلبی طور پر آدمی بالکل مشرکین سے برأت کا اظہار کرے
ماں نے پوچھا ۔ وہ کیسے بلال 9 فرمایا اماں اگر ان کے پاس طاقت ہوتی تو میری ماں کو تو سفارشی بنا کر ساتھ نہ لاتے ۔ ان کی ہمت جواب دے گئی ہے ان کی طاقت ختم ہو چکی ہے ۔ آپ جا کے کہہ دیں امیہ سے کہ وہ جتنے ستم چاہے مجھ پہ ڈھادے لیکن میں احد کا نعرہ نہیں چھوڑ سکتا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن رحمت نہیں چھوڑ سکتا۔ اسی عالم میں ایک دن سید نا ابو بکر صدیق کا گزر ہوا بلال کو دیکھا اور امیہ سے فرمایا ۔ امیہ یہ غلام بیچتے ہو؟ وہ بولا ۔ یار میری جان چھڑاؤ یہ تو گلے پڑ گیا ہے ، یہ تو بات ہی نہیں مانتا۔ آپ اسے لینا چاہتے ہیں ؟ صدیق اکبر نے فرمایا۔ ہاں لینا چاہتا ہوں۔ اس نے قیمت بتائی جو آپ نے ادا فرمائی اور حضرت بلال کو خرید کر آزاد کر دیا ۔ حدیث کی کتابوں میں آتا ہے حضرت بلال بھی سید تھے اور ان
کو آزاد کرانے والا بھی سید تھا یعنی دونوں سردار تھے اور جب آل یاسر پر ظلم ہوتا بی بی سمعیہ ان کے شوہر یا سر اور بیٹے عمار پر وہ مظالم ڈھائے گئے جن کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی ۔ یعنی آپ نے تو تاتاریوں کے مظالم پڑھے ہوں گے ۔ چنگیز ہلا کو اور حجاج بن یوسف کے مظالم سنے ہوں گے لیکن کفار قریش نے جو مسلمانوں کو تعذیب دی اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت بی بی زنیرہ کو اتنا مارا گیا کہ بی بی اندھی ہو گئیں اور پھر جب ان کی آنکھیں چلی گئیں تو کہتے تھے کہ ہمارے لات و عزئی نے ان کی آنکھیں لے لی ہیں ہمارے خداؤں کی مخالفت کی ہے نا تو انہوں نے تجھے اندھا کر دیا ہے اور بی بی صاحبہ روتے ہوئے اللہ سے عرض کرتیں یا اللہ مجھے اندھا ہونا منظور ہے لیکن میں تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہیں چھوڑسکتی ۔ تو حید کو ترک نہیں کر سکتی۔ لیکن جب یہ طعنہ دیتے ہیں کہ ہمارے خداؤں نے تجھے اندھا کر دیا تو یہ طعنہ میرے لیے نا قابل برداشت ہے ۔ اور پھر رات سو کر اٹھیں تو آنکھیں ٹھیک ہو چکی تھیں، نور پھر سے بحال ہو گیا اب کا فرحیران کہ یہ کیسے ہوا۔ آج
آج کا مسلمان ہمیں تو یہ دین مفت میں ملا ہے نا میرے بھائی اس لیے ہمیں دین کی قدر نہیں، مسلمان کے یہ تکلیفیں اگر چہ تمام بیکس مسلمانوں پر عام تھیں لیکن ان میں سے کچھ جن پر قریش بہت زیادہ مہربان تھے ان کے نام یہ ہیں۔ 1 - خباب بن الارت تمیم کے قبیلہ سے تھے جاہلیت میں غلام بنا کر فروخت کیے گئے تھے ام انمار نے خرید لیا تھا۔ یہ اس زمانے میں اسلام لائے جب ابھی تک چھ سات اشخاص اسلام لا چکے تھے ۔ 2 - بلال امیہ بن خلف کے غلام تھے ۔ 3۔ یا سر میمن کے رہنے والے تھے ابو حذیفہ فخروی نے اپنی کنیز سمعیہ سے اس کی شادی کی جس کے پیٹ سے عمار پیدا ہوئے ۔ حضرت سمعیہ اسلام کی پہلی شہید ہیں ۔ 4۔ صہیب رومی ۔ یہ رومی مشہور ہیں مگر در حقیقت رومی نہ تھے ان کے والد سنان کسری کی طرف سے اللہ کے حاکم تھے ان کا خاندان موصل میں آباد تھا ایک دفعہ رومیوں نے حملہ کیا اور اسے بھی پکڑ کر لے گئے ۔ یہ روم میں پہلے اس لیے عربی اچھی طرح نہ بول سکتے تھے ایک عرب انہیں خرید کر یہاں آیا عبدا ابن جدعان نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا تھا۔ دعوت اسلام شروع ہوئی تو یہ اور تمارا کٹھے جا کر مسلمان ہوئے تھے ۔ 5۔ ابوفلیبہ عنفوان ابن امیہ کے غلام تھے بلال کے ساتھ اسلام لائے ۔ 6۔ بعینہ یہ بے تاری کنیز تھیں حضرت عمر اس کو مارتے مارتے تھک جاتے تھے ۔ 7۔ حضرت زنیرہ حضرت عمر کے گھرانے کی کنیز کیں ۔ 8 ۔ حضرت نہ یہ اور ام عمیں یہ دونوں بھی کنیزیں تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیق کے دفتر فضائل کا یہ پہلا باب ہے کہ انہوں نے ان مظلوموں میں سے اکثر کی جان بچائی۔ حضرت بلال، عامر بن فہیرہ ، بیند از نیره ، تبد یا مام میں سب کو بھاری بھاری داموں پر خریدا اور آزاد کر دیا یہ وہ لوگ تھے جن کو قریش نے سخت تکالیف پہنچا ئیں ۔ ان سے کم درجہ وہ تھے جن کو کفار طرح طرح ( بشکریہ سیرۃ النبی از شبلی نعمانی
گھر پیدا ہوئے باپ مسلمان تھا الحمد للہ دادا بھی مسلمان تھا ، ہم نے تو ڈھیلا بھی نہیں لگایا ، نہ جان لگائی نہ مال لگا یا ہمیں کیا قدر ہو گی دین کی۔ ہم تو نماز بھی پڑھتے ہیں تو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان کر کے دیکھیں جی آج حرم میں نماز پڑھ کے آیا ہوں اچھا بھئی آپ اگر نہ جاتے تو حرم اداس ہوتا ۔ آج تو میں نے طواف کیا ۔ بالکل جی شکر ہے اللہ کا آپ طواف نہ کرتے تو خدا کا تو گھر خالی ہو جاتا اللہ کے فرشتے بھی نہ اتر تے یہ باتیں ہیں ہماری ، میرا تو یہ خیال ہے کہ ہمارے طواف سے کعبہ تنگ نہ آتا ہو ۔ میں یہ تصور تو کر سکتا ہوں کہ ہمارے طواف سے ملائکہ اور اللہ والوں کو تکلیف ہوتی ہوگی اذیت ہوتی ہو گی یہ نہیں سوچ سکتا کہ ہمارے طواف سے ان کو راحت ہو ۔ اس لیے ایک فارسی کے شاعر نے کیا خوب کہا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے کہ جب میں طواف کرتا ہوں تو کعبہ سے ندا آتی ہے کہ میرے باہر تم کیا کر رہے تھے جو اندر بھی آگئے ہو اور جب میں نے کعبہ کی زمین پر سجدہ کیا تو زمین چیخنے لگی کہ کیوں مجھے نا پاک کرتے ہو ریا کے سجدے کر کے ، سارا دن غیر کی عبادت کرتے ہو اور لوگوں کو خوش کرتے ہوا دھر سجدہ کر کے اللہ کو بھی راضی رکھنا چاہتے ہو اور تمہارے ریا کے سجدوں سے تو بہتر ہے تم سجدہ ہی نہ کرو۔ تو بھائیو ڈر لگتا ہے اپنی بے ادبی سے اللہ معاف کرے ہماری زبانیں گندی ، ہمارے ہاتھ پاؤں گناہ سے آلودہ ہمارے اعمال قبیح اور پھر ہم کعبہ میں چلے جائیں اتنے گناہ لے کر ۔ کعبہ کس سے جاؤ گے غالب منہ شرم تم کو مگر نہیں آتی مگر اس سب کے باوجود بس امید ہے تو یہی کہ وہ غفور الرحیم ہے وہ ارحم الرحمین ہے اور ہم اس کی مخلوق میں بندے ہیں اور اس کی رحمت کے طلب گار ہیں