zindagi ki qimat urdu kahani زندگی کی قیمت



 چودہ اگست کا دن ہر پاکستانی کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ آزادی لفظ ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر جاندار میں موجود ہوتا ہے۔ اگست کا مہینہ آتے ہی ہر پاکستانی کے دل میں چھپاوطن کا جذبہ جوش کے ساتھ ابھرنے لگتا ہے۔ یہی جوش و جذ بہ علی میں بھی تھا۔ علی اور اس کے دوست بھی اگست کی تیاریوں میں دن رات محنت کر رہے تھے۔ علی کے کہنے پر اس کے دوستوں نے اپنی اپنی موٹر سائیکلوں سے سائیلنسر نکال دیے۔ سب دوستوں
کا چودہ اگست کے دن بہت مستیاں کرنے کا ارادہ تھا۔ علی اٹھارہ سال کا ایک جوان لڑکا تھا اور کالج کا طالب علم تھا۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے بے حد لا ڈلا تھا۔ علی کے ابو بیٹے کو پیار کرنے کے ساتھ اسے وقت کی نازک صورت حال سے آگاہ بھی کرتے تھے مگر علی کی امی اس پر ٹھیک اور غلط بات پر اس کا ساتھ دیتی تھیں۔ یہ بات اصغر صاحب کو بالکل پسند نہیں تھی ۔ وہ انہیں ایسا کرنے سے ہمیشہ منع کرتے تھے
 ایک دن علی اپنی امی کے پاس گیا اور کہا : امی ! مجھے دس ہزار روپے دیں گی ؟ علی نے کہا تو اس کی امی نے چونک کر اسے دیکھا۔ دس ہزار؟ بیٹا ! تم دس ہزار کا کیا کرو گے؟ امی کے لہجے میں بے پناہ حیرت تھی ۔ امی ! آپ تو جانتی ہیں کہ چودہ اگست کی آمد آمد ہے۔۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی میں اپنے دوستوں کے ساتھ چودہ اگست پر گھومنے پھرنے جاؤں گا۔ ظاہری سی بات ہے خرچہ تو ہوگا نا۔ اب سارے دوست کھا ئیں پیئیں گے اور میں ان کا منہ دیکھتا رہ جاؤں گا۔ پلیز امی !‘ علی نے ماں سے پیسوں کی فرمائش کرتے ہوئے کہا۔ علی بیٹا ! چودہ اگست کو تمھارے ابو بھی گھر پر ہوں گے۔ وہ تمھیں دوستوں کے ساتھ کہیں جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ بہتر ہے، تم اپنے اس ارادے کو ترک کر دو ۔
علی کی امی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے شوہر کی سخت طبیعت سے بخوبی واقف تھیں اس لیے علی کو پیسے دینے سے صاف انکار کر دیا مگر علی نے ایک ہی ضد پکڑی ہوئی تھی کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جشن آزادی کی خوشی میں گھومنے ضرور جائے گا۔ دو گھنٹوں کی بحث کے بعد علی کی جیت ہوئی۔ علی کی والدہ نے اسے دس ہزار روپے دے دیے اور ساتھ اس بات کی تاکید بھی کی کہ یہ بات اس کے ابو کو معلوم نہ ہو ورنہ دونوں کی خیر نہیں۔ امی سے ملے پیسوں سے علی نے اپنے لیے چودہ اگست کے لیے خاص کپڑے لیے پھر اپنی بائیک کے لیے ایک بڑا سا جھنڈ الیا اور کچھ پیسے بائیک کو ٹھیک کروانے پر لگا دیے۔ چودہ اگست کو علی اور اس کے دوست اپنی اپنی موٹر بائیک سالگرہ نمبر
: پر دور دور تک گھومتے پھرتے تھے، سب دوست اپنے اپنے گھر والوں سے پیسے بھی لاتے تھے اور انہی پیسوں سے خوب عیاشیاں بھی کرتے تھے۔ ان کی واپسی رات کو ہی ہوتی تھی ۔ علی کے ابو کو اس کا اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ گھومنا پھر نا پسند نہیں تھا۔ وہ ابو سے نظریں بچا کر ہی گھر سے نکلتا تھا۔ جب اس کے ابو اس کی امی سے اس کے بارے میں پوچھتے تھے تو یہی کہتی تھیں کہ اپنے کزن کے گھر گیا ہے آجائے گا اور علی کے ابو مطمئن ہو جاتے ۔ سفر لمبا تھا اس لیے تیاریاں بھی زیادہ تھیں ۔ علی اور اس کے دوست ہارن لے کر محلے کے درمیان کھڑے ہو کر بجانے لگے۔ ہارن کی تیز اور سخت آواز سب لوگوں کے کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔ بالآخر محلے کے ایک بزرگ نے سب بچوں کو ڈانٹ کر ان کے گھر بھیجا۔
 چودہ اگست کی صبح صبح ہی علی اپنے ابو سے چھپ کر اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے نکل گیا۔ سڑکوں پر ہر طرف شور اور ہنگامہ برپا تھا۔ اپنی نوجوان قوم کو غفلت کی نیند سویا ہوا دیکھ کر ایک اسی سالہ بزرگ کو افسوس ہو رہا تھا۔ وہ سڑک کے کنا رہے کھڑے ہوئے اپنے نئی نسل کو جشن آزادی مناتے دیکھ کر غم زدہ ہو رہے تھے اور سوچ رہے تھے ہمارے قائد اعظم نے کیا پاکستان ہمیں اس لیے بنا کر دیا تھا کہ آزادی کے دن اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے بجائے ہم یوں سڑکوں پر باجے بجا کر اور ناچ گانا کر کے آزادی کا مفہوم بیان کریں گے۔ آزادی کے اصلی معنی کیا ہے شاید آج کی نئی نسل نہیں جانتی۔ و مجھے لگتا ہے میری بائیک خراب ہو رہی ہے میں اس سے آگے کا سفر اس بائیک پر طے نہیں کروں گا۔ علی کو سڑک کے درمیان اپنی بائیک خراب محسوس ہو رہی تھی ۔ 20 اگست 2022 ء
تمھاری بائیک بالکل ٹھیک ہے علی ! اب چلو یہاں سے علی کے دوست ریحان نے کہا۔ علی دوبارہ بائیک پر سوار ہو گیا اور بائیک چلانے لگا۔ اس کے پیچھے بیٹھا اس کا دوست اکبر با جا بجا رہا تھا اور علی کو مزید بائیک تیز چلانے کا کہا۔ علی نے موٹر بائیک کی سپیڈ میں اضافہ کر دیا۔ اس کے پیچھے بیٹھا اکبر مسلسل باجا بجارہا تھا جس سے فضا مرتعش ہو رہی تھی اور قرب و جوار میں موجود لوگ ان کو تاسف بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اکبر جتنا زیادہ پر جوش ہو کر با جا بجاتا علی پر بھی جنون سوار ہو جا تا ۔ کئی بار اس نے ون ویلنگ کی۔ دوسری موٹر بائیک پر موجود اس کے دوست بھی باجے بجانے اور ون ویلنگ میں مصروف تھے۔ پھر جیسے ہی علی نے دوبارہ ون ویلنگ کی تو اس کی موٹر بائیک کا توازن بگڑ گیا۔ اس نے موٹر بائیک سنبھالنے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن بے سود۔
: تھا۔ اگلے ہی لمحے بائیک آؤٹ آف کنٹرول ہوئی اور سامنے سے آتے ٹرک کے ساتھ ایک دھماکے سے جا کر ٹکرائی۔ دونوں دوست موٹر بائیک سے اچھل کر ٹھوس زمین پر گرے۔ اکبر تو ٹرک کے پہیوں کے نیچے کچلا گیا جبکہ علی کو سر میں گہری چوٹیں آئیں اور چند لمحوں کے بعد وہ دونوں ہوش کی دنیا سے لا تعلق ہو کر بے ہوش ہو گئے۔ علی دو دن سے آئی سی یو میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا البتہ اس کا دوست اکبر کچھ گھنٹوں بعد ہی اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا تھا۔ اکبر کی والدہ شدت غم سے بے ہوش ہو گئی جبکہ اس کے والد اور بہن بھائی بھی غم سے نڈھال ہو گئے ۔ دوسری طرف علی کے والدین کا رو رو کر برا حال تھا۔ ڈاکٹر علی کے لیے جواب دے چکے تھے کہ اس کا بچنا بھی ناممکن
 ہے۔ وہ اسے بچانے کی اپنی پوری کوشش کر رہے تھے۔ اس کے دماغ پر گہری چوٹیں لگی تھیں۔ ڈاکٹرز نے چوبیس گھنٹے انتہائی اہم قرار دینے تھے۔ پھر اگلے دن علی بھی اپنے ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ علی اور اس کے دوست کی غفلت کی وجہ سے وہ اپنی قیمتی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ آزادی منانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ہم ہر وہ کام کریں جس سے ہماری جان بھی جا سکتی ہے۔ چودہ اگست کو سڑکوں پر موٹر سائیکلیں تیزی سے چلانا، ہارن بجانا، اونچی آواز میں گانے لگانا، ون ویلنگ کرنا کیا یہ سب جشن آزادی منانے میں شامل ہونا چاہیے؟ بالکل بھی نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ آزادی ملنے پر اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کریں جنھوں نے ہمارا ملک پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
 ہمیں اپنی زندگی کی قیمت کا احساس ہونا چاہیے۔ ہماری جان ، ہماری زندگی اللہ کا ہم پر سب سے بڑا تحفہ ہے۔ ہماری جان ملک کی خاطر قربان ہو سکتی ہے لیکن جشن آزادی مناتے ہوئے شور شرابے اور پارٹی کرتے ہوئے نہیں۔




Post a Comment

Previous Post Next Post